قومی اسمبلی کا 25واں سیشن سپیکر کے انتخاب کے بعد غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا ،ہائوس بزنس کمیٹی کے اجلاس میں قومی اسمبلی کا سیشن 18نومبر2015ء تک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،قومی اسمبلی کے متعدد ارکان بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی وجہ سے اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں جانا چاہتے تھے لہٰذایہ اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کرنا پڑ ا۔وزارت پارلیمانی امور نے قومی اسمبلی کا اجلاس 20نومبر کو طلب کرنے کی سمری بھجوا دی ہے ،بدھ کو اجلاس میں کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ پر معنی خیز جملے کہے گئے تاہم حکومت نے خاموشی اختیار کر لی ،اس بحث میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز سامنے آئی، اگرچہ قومی اسمبلی میں حکومت کی طرف سے کسی ذمہ دار شخصیت نے اس اعلامیہ پر تبصرہ نہیں کیا گیا تاہم وزیر اعظم کی کراچی سے واپسی پر وزیر اعظم کے ترجمان نے محتاط انداز میں ایک بیان جاری کیا جس میں تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داریوں اور آئینی حدود کی یاددہانی کرائی گئی ،خورشید شاہ نے بھی محتاط انداز میں کور کمانڈرز کانفرنس میں’’ گڈ گورننس‘‘ کی بات کو حکومت کے لیے بہت بڑا اشارہ قرار دیا ،محمود خان اچکزئی ’’دبنگ سیاست دان‘‘ ہیں لگی لپٹی رکھے بغیر برملا دل کی بات کا اظہار کر دیتے ہیں ممکن ہے حکومت اس بیان پر اس طرح رد عمل کا اظہار نہ کرتی انہوں نے کہاکہ دونوں شریفوں کو ایک ’’صٖفحہ ‘ پر ہونا چاہیئے۔ ا گر کوئی گڑ بڑ ہوئی تو وہ سویلین شریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے، بعد ازں وہ ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کر گئے، انہوں نے اپنی حمایت سیاسی قوتوں کے پلڑے میں ڈال دی ہے، اگرکو رکمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ جار ی کرتے وقت گورنس کا ذکر نہ کیا جاتا تو ممکن ہے وزیر اعظم آفس کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیتا ،وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جنہوں نے نیشنل ایکشن پروگرام کا مسودہ تیار کیا ہے وہ عسکری قیادت کے بہت قریب تصور کئے جاتے حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان ’’پل ‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔وزارت داخلہ کی گڈ گورنس کا تو زمانہ قائل ہے ،وزیر اعظم نے گذشتہ دنوں جب واشنگٹن میں پاکستانی کمیونٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی کا نام لیا تو خاصی دیر تک تالیاں بجتی رہیں اس لئے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے پوری حکومت کچھ نہیں کر رہی، بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف مسلسل تالیاں بجانا دراصل گڈ گورنس کا اعتراف ہے۔قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت پر شروع ہوا تو اس وقت حکومتی اور اپوزیشن کے پانچ فیصد ارکان بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ اجلاس میں وفاقی وزرا اور وفاقی وزارتوں کے اعلی افسران کی عدم موجودگی پر سپیکر نے اجلاس بطور احتجاج 10 منٹ کے لیے معطل کر دیا۔سپیکر ایاز صادق نے اجلاس معطل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی گیلری میں موجود وفاقی وزارتوں کے جونیئر افسران کو بھی باہر نکال دیا ۔ چیئرمین سینٹ نے چار ماہ سے اسلام آباد کے تھانوں میں ہونی والی چوری و ڈکیتی کی وارداتوںکے حوالے سے سوال کا جواب نہ آنے پر شدید اظہار برہمی کا اظہار کیا ہے ،سینیٹر طلحہ محمود کی جانب سے پوچھے گئے نفاذ اردو کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ وفاقی وزیر بین الصوبائی ریاض پیرزادہ کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید ، عرفان صدیقی ، بیرسٹر ظفرالحق ، رانا تنویر اور سیکرٹری محمد اعظم شامل ہیں اس کمیٹی کا ایک اجلاس 14 ستمبر کو منعقد ہو چکا ہے اس حوالے سے مزید اقدامات کئے جا رہے ہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی شدید مخالفت اور ’’نونو ‘‘کے نعروں میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952میں مزید ترمیم کے بل کو کثرت رائے کی بنیاد پر منظور کر لیا گیا۔ چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی جہاندیدہ شخصیت ہیں نے ملک میں قومی سلامتی کے معاملے پر غیر معمولی حالات کے پیش نظر حکومت کو فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ ان کیمرہ اجلاس طلب کرنے کا مشورہ دے دیا ہے۔