ینگون (بی بی سی+ اے ایف پی) میانمار کی حزب اختلاف کی رہنما انگ سان سوچی نے قومی مفاہمت پر مذاکرات کی غرض سے فوجی حمایت یافتہ قیادت سے ملاقات کی درخواست کر دی ہے۔ ان کی جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی کو انتخابات میں واضح برتری حاصل ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی نے میانمار کے صدر تھین سین، آرمڈ فورسسز کے کمانڈر، اور پارلیمان کے سپیکر کے نام خطوط تحریر کئے ہیں۔ ینگون میں بی بی سی کے مطابق انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی فوجی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) کی حالیہ شکست ان کے لئے ذلت آمیز ہے۔ خیال رہے کہ پانچ سال قبل ہونے والے انتخابات کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جوناتھن کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر نئی پارلیمان میں اب این ایل ڈی کو برتری حاصل ہوگی اور مخالفت میں صرف فوجی دھڑے رہ جائیں گے۔ تاہم آئینی طور پر سوچی صدارت کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتی ہیں۔ نامہ نگاروں کے مطابق آنگ سان سوچی نے اب تک فتح کا اعلان نہیں کیا ہے اور وہ بہت احتیاط سے کام لے رہی ہیں جبکہ وہ اگلے ہفتے تین سب سے سینیئر حکومتی اہلکاروں کے ساتھ حکومت کے مرحلہ وار تبادلے کے لیے بات چیت بھی کر رہی ہیں۔ این ایل ڈی کی جانب سے شائع ہونے والے ان کے خطوط میں وہ لکھتی ہیں کہ ’لوگوں کی خواہشوں کو پْرامن طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک کے وقار اور لوگوں کے ذہنی سکون کے لیے بہت ضروری ہے۔اس لیے میں آپ سے قومی مفاہمت کی خاطر بات کرنا چاہتی ہوں۔مہربانی کرکے اگلے ہفتے آپ کے لیے جو وقت موزوں ہو آپ ملاقات رکھ لیں۔‘ میانمار کے وزیر اطلاعات نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے پیج پر اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت انتخابات کے نتائج کا احترام کرے گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس ملاقات کی درخواست کی گئی ہے وہ تب ہی ممکن ہے جب الیکشن کمیشن اپنا کام مکمل کرلے گا۔ ادھر سوچی نے اپنے آبائی حلقے سے سیٹ جیت لی۔ آرمی چیف من آنگ ہلنگ نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا این ایل ڈی الیکشن میں اکثریت حاصل کر رہی ہے۔