لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس ارم سجاد گل پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے الطاف حسین کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی دائر درخواستوں کی سماعت 17 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے الطاف کی وکیل کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق الطاف حسین کا دوبارہ بیان حلفی داخل کریں۔ وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ الطاف حسین کے بیانات نشر کرنے کی پابندی سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔ آئین کی رو سے کسی کے اظہار رائے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ الطاف حسین کے بو لنے پر پابندی نہیں لیکن وہ جو کچھ تقاریر میں کہتے رہے ہیں اس کا نو ٹس لیا گیا ہے۔ درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ الطاف نے جو بیان حلفی جمع کرایا اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق نہ تو انہوں نے اپنے بیانات پر معافی مانگی اور نہ ہی آئندہ ایسی تقاریر سے اجتناب برتنے کا حلف لیا۔ جس پر عدالت نے قرار دیا کہ الطاف حسین کا بیان حلفی غیرتسلی بخش ہے، لٰہذا وہ نیا بیان حلفی جمع کروائیں۔ عدالتیں آئین کے مطابق کام کرتی ہیں اور جو خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ الطاف کی وکیل نے دلائل دیئے کہ پابندی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔ ہائیکورٹ اس فیصلے کی روشنی میں کارروائی آ گے بڑھائے، بیان حلفی پر عدالت عبوری حکم دے اس کے مطابق نیا بیان حلفی جمع کرادیا جائے گا۔ عدالت نے الطاف کے وکلاء کو ہدایت کہ وہ ہدایات لے کر عدالت میں پیش ہوں جس کے بعد عدالت بیان حلفی پر تحریری حکم جاری کرے گی۔