انتخابات کے بعد امریکہ کی موجودہ صورتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ کا شیرازہ بکھرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ قانون قدرت ہے کہ ہر زوال کو ایک نہ ایک دن عروج حاصل ہوتا ہے اور ہر عروج کو ایک نہ ایک دن زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ آج سے تقریباً دو تین سو برس پہلے اس عمل کی رفتار قدرے کم تھی لیکن اب چونکہ انسان نے خود ہی وقت کی رفتار تیز کر لی ہے لہٰذا عروج و زوال کے عمل کی رفتار بھی تیز ہو گئی ہے.... امریکہ نے تقریباً پون صدی (ستر برس) دنیا پر حکومت کی ہے اب امریکہ کے زوال کا وقت آ گیا ہے۔
امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور امریکہ بھر میں عموماً اور کیلیفورنیا اور شکاگو میں خصوصاً طلبا و طالبات اور عوام کی کثیر تعداد نے ٹرمپ کے خلاف شدید قسم کا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے توڑ پھوڑ بھی کی ہے‘ ٹرمپ کے پتلے بھی نذر آتش کئے ہیں اور یہ احتجاج روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے۔ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اگر عوامی ردعمل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے قابو سے باہر ہو گیا تو یہ انتخابات کالعدم قرار دے دیئے جائیں گے۔ امریکہ نے تمام تجزیہ کاروں نے ٹرمپ کی جیت کو امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا ”اپ سیٹ“ قرار دیا ہے اور امریکی تبصرہ نگاروں‘ تجزیہ کاروں اور سیاسی ماہروں سمیت پوری دنیا کے ماہرین سیاسیات نے ٹرمپ کی جیت پر شدید حیرت کا اظہار کیا ہے۔ کیونکہ الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ کے مقابلے میں تمام مباحثے ہلیری نے جیتے۔ ہر جگہ سوال و جواب کے موقع پر بھی ہلیری کو ٹرمپ پر برتری حاصل رہی۔ پالیسی اور نظریات کے اعتبار سے بھی ہلیری عوام کی پسندیدہ امیدوار تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کی طرف سے ملنے والے ووٹوں کی تعداد میں بھی ہلیری کو ٹرمپ سبقت حاصل تھی‘ اس کے باوجود فیصلہ ان سب باتوں کے برعکس آیا۔ سیاسی مبصرین اور ماہرین کا ایک گروپ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ ساری گڑبڑ الیکٹورل ووٹوں کے موقع پر ہوئی ہے۔ وہاں باقاعدہ دھاندلی کی گئی ہے کیونکہ رات گئے تک ہلیری کو ٹرمپ پر دو پوائنٹ کی برتری حاصل تھی لیکن صبح ہوتے ہی ہلیری کے ووٹوں کی تعداد منجمد ہو گئی اور بقیہ تمام ووٹ ٹرمپ کی جھولی میں ڈال دیئے گئے۔
دراصل امریکہ میں یہودی لابی بہت مضبوط ہے اور امریکہ پر حقیقی معنوں میں یہودیوں کی حکومت ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ بل کلنٹن نے اپنے دور حکومت میں اسرائیل کے متعلق صرف ایک ایسی قرارداد کی حمایت کی تھی جو اسرائیل نہیں چاہتا تھا۔ اس کے بعد یہودی لابی نے کلنٹن کو کیس میں پھنسا کر عدالت تک پہنچایا اور پوری دنیا میں شرمندہ کروایا۔ ہلیری کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا ہے کہ ہلیری کو یہودیوں کی حمایت حاصل نہیں۔ اس کے برعکس ٹرمپ ہے ہی یہودیوں کی تاش کا پتّا۔ اب اس کے ساتھ کم از کم وہ چار سال تو امریکہ کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں اپنی مرضی کا کھیل کھل کر کھیلیں گے۔
ٹرمپ کی منفی سوچ اور آئندہ درپیش خطرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی فتح کے ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ یورپ کی سٹاک مارکیٹ بھی کریش ہو گئی ہے اور ڈالر کی قدر اچانک گر گئی ہے۔ جس سے پوری دنیا کی اکانومی متاثر ہوئی ہے۔ دوسرے مسلمانوں کے خلاف جو بیانات ٹرمپ نے دیئے ان کے باعث تمام مسلم ممالک میں ٹرمپ کی فتح خطرے کا الارم بن کر بول اٹھی ہے۔ پاکستان کو اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم تو امریکہ کے غلامِ بے دام ہیں۔ وہاں کا صدر کون ہے؟ ہلیری ہے یا ٹرمپ.... ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم نے تو غلامی کرنا ہے۔ اس لئے ٹرمپ کو جیتنے پر سب سے پہلی مبارکباد ہماری طرف سے گئی ہے جبکہ یورپ‘ چین اور جاپان سمیت بہت سے ممالک نے ابھی تک ٹرمپ کو امریکی صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام نہیں بھیجا۔ وہ تیل اور اس کی دھار دیکھ رہے ہیں اور چونکہ خوددار لوگ ہیں اس لئے ابھی خاموش ہیں۔ آنے والے چند دنوں یا ہفتوں میں پتا چلے گا کہ ٹرمپ کی فتح امریکی عوام کو ہضم ہو جائے گی یا نہیں۔ اگر یہ کڑوی گولی امریکی عوام نے نگلنے سے انکار کر دیا تو پھر امریکہ بھی ”دما دم مست قلندر“ ہو گا جیسے ہمارے ہاں ہر الیکشن کے بعد ہوتا ہے اور جس کا رونا عمران خان ابھی تک رو رہا ہے۔
دیکھئے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے