مستقبل کے حکومتی منظرنامے۔افواہوں کا تجزیہ

Nov 12, 2017

نواز شریف کووزیر اعظم کے عہدے سے الگ کردیا گیا اور ان کے خلاف اب نیب کے تحت مقدمات بھی چل رہے ہیں۔ لیکن مستقبل کے حکومتی منظر نامہ کے حوالے سے مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت آسکتی ہے ۔ کوئی مائنس ون فارمولا لاگو ہوسکتا ہے ، NROہوسکتاہے اور کچھ نہیں تو مارشل لاء ہی لگ سکتا ہے۔یہ افواہیں کیوں گردش کررہی ہیں یا ان آپشنز پر کیوں غور ہورہا ہے ؟ اسکی صرف ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ نوازشریف اب بھی پورے قد کے ساتھ سیاست کے میدان میں کھڑا ہے اوراسکے مقابلے پر جو سیاسی لیڈر پیدا کئے جارہے ہیں وہ اس کے سامنے بونے نظر آرہے ہیں ۔ یہ نظر آرہا ہے کہ اگر موجودہ حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی تو ن لیگ نہ صرف سینیٹ میں اکثریتی پارٹی بن جائیگی بلکہ اگلا الیکشن بھی جیت جائیگی۔مندرجہ بالا آپشنر پر یقینا بڑے بڑے دماغ کام کررہے ہونگے ذرا ہم بھی دیکھتے ہیں کیا ہوسکتا ہے اور کیا نہیں۔تجربے کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جب بھی حکومت گرانا چاہتی ہے کبھی ناکام نہیں ہوتی لیکن اپنی مرضی کی حکومت بنانے میں ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی۔ ٹیکنو کریٹ حکومت کا شوشہ زرداری حکومت کے زمانے میں بھی چلتا رہا اور میں نے خو د ٹیکنو کریٹ حضرا ت کی موٹی موٹی فائلیں دیکھی ہیں جن میں انکی ڈگریاں اور منصوبے بیان ہوتے تھے۔ لیکن یہ بیل نہ اس وقت منڈیر چڑھی تھی نہ اب چڑھے گی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ3 سال کیلئے حکومت ٹیکنو کریٹ یعنی مختلف شعبوں کے ماہرین کے حوالے سے کردی جائے وہ عوام کے اور ملک کے مسائل حل کردینگے اور پھر حکومت واپس جمہوری اداروں کے حوالے کردی جائے۔ مجھے ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ اگر تین سال میں ٹیکنو کریٹ تمام مسائل حل کردینگے تو حکومت ان کے پاس ہی کیوں نہ رہنے دی جائے واپس مسائل پیدا کرنے کیلئے جمہوری اداروں کے حوالے کیوں کی جائے۔ پاکستان میں جب بھی کسی آمر نے حکومت پر قبضہ کیا ٹیکنو کریٹ حکومت پر مشتمل حکومت ہی بنائی لیکن وہ کبھی بھی مسائل حل نہ کرسکے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شعبے کا ماہر اپنے شعبے کا ماہر ضرور ہوتا ہے لیکن حکومت چلانے کا ماہر نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر معاشی ماہر جوایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ یا بینکر ہوسکتا ہے وہ ایک ادارے کا حساب کتاب ضرور کرسکتا ہے لیکن پورے ملک کی معیشت کے مسائل اسکی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔ بہر حال یہ آپشنز ضرور زیر غورہے۔ ایسی حکومت کیسے بن سکتی ہے۔ آئین میں تو اسکا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے لئے دو راستے بتائے جارہے ہیں ۔پہلا یہ کہ جب الیکشن کروانے کے لئے Interim Govt بنے تو اسکو طول دے دیا جائے اور اس میں ٹیکنو کریٹ کو شامل کردیا جائے ۔ اس تجویز پر عملد رآمد کیلئے نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی مدد سے تعطل پیدا کرلیا گیا ہے تاکہ موجودہ حکومت تو وقت پر ختم ہوجائے لیکن الیکشن کمیشن الیکشن وقت پر کرانے کے لئے تیا ری نہ کرسکے۔ یہ منصوبہ بڑی حد تک قابل عمل لگتا ہے لیکن اس میں خامی یہ ہے کہ سینیٹ کے الیکشن ہوجائیں گے اور ن لیگ وہاں اکثریت حاصل کرلے گی۔ ٹیکنو کریٹ حکومت بنانے کا دوسرا طریقہ کار یہ زیر غور ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ فیصلہ لیا جائے کہ موجودہ جمہوری حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے ناکام ہوچکی ہے اور اب عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے ٹیکنو کریٹ حکومت قائم کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ نظر آرہا ہے کرسکتی ہے ۔ وہ جنرل مشرف کو آئین میں ترامیم کا اختیار دے سکتی ہے ، وہ اسمبلیاں توڑنا جائز قراردے سکتی ہے یہ تو معمولی معاملہ ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں سپریم کورٹ کو سوچنا پڑے گا کہ ایسا فیصلہ دینے سے آئین کے حکومت بنانے اور حکومت چلانے والے تقریبا ً ایک سو آرٹیکل معطل ہوجائیں گے تو کیا یہ آئین کو Subvert کرنے یا Subjugate کرنے کے مترادف تو نہ ہوگا اور کسی بھلے وقت میں جب جمہوری حکومت بحال ہوگئی تو ایسے فیصلے کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ تو نہ بن جائے گا۔ 

مائنس ون کے فارمولے پر تو نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اور وزارت عظمیٰ سے فارغ کرکے آغاز کردیا گیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ اس فیصلے کے بعد ن لیگ تتر بتر ہوجائے گی۔نوازشریف عوام کی نظروں سے گرجائیں گے اور وہ خو د سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں گے یا پارٹی انکو الگ کردیگی ۔ ایسا تو کچھ بھی نہ ہوا۔ نوازشریف کی پارٹی نہ صرف قائم ہے بلکہ نوازشریف کی قیادت میں متحد ہے۔ انہوں نے فوراً نیا وزیر اعظم نامزد کیا اور پارٹی کے تمام ارکان نے ووٹ ڈال کر اسکو منتخب کرلیا۔ نوازشریف کی مرضی سے کابینہ بن گئی اور حکومت چل رہی ہے۔ نوازشریف کی مقبولیت بھی عوا م میں قائم ہے جس کا مظاہرہ ان کے G.T روڈ مارچ اور NA-120 الیکشن میں دیکھا گیا ہے۔ عوام میں نوازشریف کی مقبولیت کو قائم رکھنے میں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے بھی بڑا کردارادا کیا ۔ جب گاڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کئے گئے اور فیصلہ دینے سے پہلے ہی سسلین مافیا سے تشبیہہ دی گئی تو عوام سمجھ گئے کہ کیساانصاف ہونے والا ہے۔ مقدمہ کے دوران بہت مقامات پر عوام کو اپنے لیڈر کے خلاف ناانصافی ہوتی ہوئی صاف نظر آتی رہی اور جب فیصلہ آیا تو ساری دنیا کے لئے حیران کن تھا۔ مقدمہ تو یہ تھا کہ ثابت کیا جائے کہ نوازشریف نے اربوں ڈالر کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کی ہے۔ لیکن نااہلی کے فیصلے میں ان گھنائونے جرائم کا ذکر بھی نہ تھا۔ یہ یقینا جج صاحبا ن کی مہربانی تھی کہ انہوں نے نااہلی کیلئے اس تنخواہ کو بنیاد بنایا جو وصول بھی نہ کی گئی تھی۔ نیب میں ریفرنس بھیجتے وقت بھی نیب کے طریقہ کار کے خلاف سپریم کورٹ نے براہ راست ریفرنس قائم کرنے کا حکم دے دیا اور اوپر مانیٹر کرنے کیلئے ایسا جج مقرر کردیا جو پہلے ہی نوازشریف کے خلاف فیصلہ دے چکا ہے۔ اب اس نیب کے فیصلوں سے نوازشریف کو سزا تو دی جاسکے گی لیکن عوام کے دلوں سے نہ نکالا جاسکے گا اور مائنس ون کا فارمولا مکمل ناکام ہوجائے گا۔ نوازشریف کو باہر رکھنے کے لئے ایک اور حربہ استعمال ہورہا ہے۔ اس کو NRO کا نام دیا گیا ہے۔ اسکے مطابق نوازشریف سے کہا جارہا ہے کہ وہ شہبازشریف کے حق میں دستبردار ہوجائیں اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں تو انکے اور انکے خاندان کے لئے آسانیاں پید ا ہوسکتی ہیں ۔ اس فارمولے پر پہلے اسطرح عمل کرنے کی کوشش کی گئی کہ پارٹی یہ مطالبہ کردے کہ موجودہ حالات میں باگ ڈور شہباز شریف کے حوالے کردی جائے لیکن بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ نوازشریف کی مرضی کے بغیر ایسا کوئی فارمولا کامیاب نہ ہوسکے گا ۔ اگر ایسا NRO ہوتا بھی ہے تو اس کی کنجی بھی نوازشریف کی جیب میں ہے اور وہ کوئی ایسا معاہدہ نہ کرینگے جس سے عوام میں ان کا امیج خراب ہو۔ آخری آپشن جس پر بحث ہوتی ہے وہ مارشل لا کا ہے کہ کسی روز قوم کے کانوں میں یہ آواز رس گھولے ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ میرے خیال میں یہ آپشن جنرل مشرف پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بننے کے بعد ختم ہوچکا ہے۔ آئین میں یہ ترمیم بھی ہوچکی ہے کہ سپریم کورٹ اس کو جائز قرار نہیں دے سکتی اور مارشل لا لگانے والوں کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ آرٹیکل 6 صرف آئین کی زینت کیلئے نہیں بلکہ اسکا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کوئی بھی شخص اس پوزیشن میں نہیں آنا چاہے گا جس میں آج کل پرویز مشرف ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ پاکستان سے جاچکا ہے اسکے خلاف یہ مقدمہ شاید کبھی بھی فیصلہ کے مرحلے تک نہ پہنچے لیکن یہ بے عزتی کچھ کم نہیں کہ آپ کو نظر بند کردیا جائے ۔ آپکو عدالتوں میں پیش ہونا پڑے۔ عدالتوں سے بچنے کے لئے ہسپتالوں میں چھپنا پڑے اور جھوٹے میڈیکل سر ٹیفکیٹ بنو ا کر ملک سے بھاگنا پڑے ۔ میرے خیال میں کوئی بھی شخص جس کو پاکستان نے بہت باعزت عہدہ سے نوازا ہو کبھی بھی ایسا کوئی کام کرنے پر راضی نہ ہوگا جس سے اسکو ان حالات کا سامنا کرنے کا خطرہ پیدا ہوجائے۔ اس لئے میرے خیال میں اس آپشن کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور شاید کوئی ضرورت بھی نہیں کہ ادارے وہ سب کچھ کرنے کو ویسے ہی تیار ہیں جو مارشل لا لگا کر ان سے کروایا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ فیصلے ان کے خلاف ہوچکے ہیں۔ عدالتیں اس کو انصاف دینے کی طاقت نہیں رکھتیں ۔ اتمام حجت کیلئے وہ عدالتوں میں پیش ہورہے ہیں تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ وہ ملک کے قانون کو نہیں مانتے ۔ لیکن اب انکی تمام سیاست کا مقصد اپنے سپورٹر ز اور عوام میں اپنی مقبولیت کو قائم رکھنا اور پارٹی کو متحد رکھنا ہے ۔ ابھی تک وہ اس میں کامیاب ہیں اگر لمبے عرصے تک وہ اس میں کامیاب رہے تو بہتروقت بھی آجائے گا۔

مزیدخبریں