رہبری" اور" منصفی "کا سوال!

پاکستان مسلم لیگ اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے درمیان "رہبری" اور" منصفی "کی علامتی بحث فی الحقیقت پاکستان کا سب سے اہم اور اصل مسئلہ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستانی عوام قیادت کے حوالے سے" قحط الرجال" کی سی کیفیت سے گزر رہی ہے، اسی طرح انصاف کے حصول کے لیے عوام در در کے ٹھوکریں کھا رہی ہے ۔"رہبری" اور" منصفی " کا معاملہ اگر حل ہو جائے تو پاکستان کا سیاسی اور عدالتی نظام ہر اعتبار سے مثالی بن سکتا ہے۔ اس معاملے کا سیر حاصل تجزیہ تو بار ہا ہو چکا ہے۔لیکن پہلی بار ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جو تیسری بار وفاقی حکومت میں ہے دونوں نے ایک شعر کے ذریعے دریا کو کوزے میں کس طرح بند کیا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی کے خلاف نظر ثانی اپیل میں کہا ہے کہ نواز شریف نے عدالت کے سوالات کا جواب دینے میں راست بازی و دیانتداری کامظاہرہ نہیں کیا۔مواقع ملنے کے باوجود سچ بیان نہیں کیا بلکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ عدالت کو بھی بیوقوف بنانے کی کوشش کی گئی۔عدالت نے قرار دیا کہ اگر قسمت نے سرپر تاج رکھ کر حکمران بنا ہی دیا تو پھر غیر متنازعہ کردار کا حامل ہونا اس عہدے کا تقاضہ ہے اور حکمران کا کردار اور گفتاراس کے عہدے کی غمازی کرتا ہے۔ ایک وزیراعظم جو قوم کی شخصیت کی علامت اور ملکی اوربین الاقوامی سطح پر ملک کی ترجمانی اور نمائندگی کرتا ہے اس کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو شک اور غیر یقینی کے پردوں میں چھپائے ایک مبہم جواب کا سہارا لے اور اثاثہ جو ثابت ہو چکا ہے اس کا انکار کرے۔ چیزیں اپنا اظہار اپنے آپ ہی کرتی ہیں۔ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ 2006کی ایک ایسی ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے اپنا دفاع کرنا جس کے فونٹ کا کمرشل استعمال 2007میں شروع ہوا نہ صرف وزیر اعظم کے وقار بلکہ ان کے عہدے کے آداب کے بھی منافی ہے۔ کیا عدالت اس بددیانتی سے صرف اس لیے صرف نظرکرے کہ وہ وزیراعظم ہیں لیکن عہدے کی بنیاد پر صرف نظر نہیںکیا جا سکتا کیونکہ امیدوار کے لیے سچ بولنا قانونی تقاضہ اور اہلیت کے امتحان کا پہلا زینہ ہے۔ یہی امیدوار لوگوں کی تقدیر کے مالک بنتے ہیں، عوام کی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں کو اپنی ذمہ داریاں دیانتداری کے ساتھ نبھانی چاہئیں اور ناجائز ذرائع کی بجائے میرٹ پر پورا اترنا چاہیے۔عوامی نمائندوں کی اہلیت کے معاملات میںکوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ ایسا کرنے سے سیاست میں تباہی آ جائے گی جو پہلے ہی آ چکی ہے اور حد ہو چکی ہے۔عدالت نے قرار دیا کہ اردو کا ایک شعر نواز شریف کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔
"ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا۔۔
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری راہبری کا سوال ہے"۔
تفصیلی فیصلے میں متعدد ضرب الامثال بھی بیان کی گئی ہیں۔عدالت نے کہا کہ بلی دیکھ کر آنکھیں بند کرنے سے کبوتر بچ نہیں سکتا۔ انہوںنے مزید تحریر کیا کہ نواز شریف یہ بھول گئے کہ تمام لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے ،لیکن ہر کسی کو ہمیشہ کے لیے بیوقو ف نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے فوراً بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے ایک بیان میں عدالتی فیصلے پر اپنا رد عمل یوں دیا ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین رہنما کے بارے میں جو کہا گیا وہ عدالتی زبان کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ نواز شریف کے خلاف توہین و تضحیک آمیز جملے استعمال کئے ،یہ جملے کسی عدالت کیلئے باعث فخر نہیں ہو سکتے، عدالتی فیصلہ بغض، عناد، غصہ اور اشتعال کی افسوسناک مثال ہے، رہبری والوں نے ہی پاکستان بنایا اور قربانیاں دیں، رہبری والوں نے ہی ملک کو ایٹمی طاقت بنایا اور جیلیں کاٹیں، رہبری کرنے والے ہی پھانسی چڑھے، ملک بدر ہوئے اور نااہل ہوئے۔ آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق بینچ نے اس فیصلے کے ذریعے ذیلی عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ یہ فیصلہ اول سے آخر تک بغض، عناد، غصہ اور اشتعال کی نہایت افسوس ناک مثال ہے۔ مسلم لیگ ن نے عدالتی فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جاری بیان میں کہا ہے کہ شاعری کا سہارا لیتے ہوئے ”راہبری“ کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ راہبری کرنے والوں نے ہی پاکستان بنایا اور اس کیلئے قربانیاں بھی دیں۔ لہٰذا سوال ”راہبری“ کا نہیں ”منصفی“ کا ہے۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ 70 برس کے دوران قافلے کیوں لٹتے رہے اور کن راہزنوں نے لوٹے؟ قافلے اس لئے لٹے کہ راہزنوں کے ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ راہزنوں سے وفاداری کے حلف اٹھائے گئے راہزنوں کی راہزنی کو جواز فراہم کرنے کیلئے نظریہ ضرورت ایجاد کیا گیا۔ بیان کے مطابق 70 سال پر پھیلا ہوا سوال ”راہبری“ کا نہیں ”منصفی“ کا ہے۔ راہبر تو آج بھی سزا پا رہے ہیں۔ پیشیاں بھگت رہے ہیں بتایا جائے کہ ”راہزن“ کہاں ہے؟ مقدس عدالتی منصب کو بغض و عناد کے تحت سیاسی شخصیات بلکہ کسی بھی پاکستانی کی کردار کشی کیلئے استعمال کرنے کو”عدلیہ کی آزادی“ کے لبادے میں نہیں چھپایا جاسکتا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بنچ کے پیش کردہ شعر میں ایک لفظی تبدیلی صورت حال کی صحیح ترجمانی کرے گا۔
تو ادھر ا±دھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں تیری ”منصفی“ کا سوال ہے
Every cloud has a silver liningکے مصداق سپریم کورٹ کے نظر ثانی فیصلے اور پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے کئے جانے والے درعمل کی سب سے مثبت بات یہ ہے کہ ہر ذی شعور کو اب یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ ملک کے دو بڑے اہم مسئلے" رہبری" اور" منصفی "ہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...