ہمارے معاشرے میں جس سرعت سے انسانی قدروں کازوال عمل پذیر ہے اور لوگوں میں رواداری کا فقدان پید اہو رہا ہے۔ وہ قابل تشویش ہے۔ حکومت وقت سابق وزیراعظم کے خلاف بدعنوانی کے مقدموں میں آگ بجھانے میں مصروف ہے جبکہ میڈیا کو پانامہ سکینڈل اور اب اسکے بعد پیراڈائس پیپرز کے انکشافات پہ بحث مباحثے سے فرصت نہیں ۔اس گمبھیرصورتحال میں پاکستان کے دوتعلیمی اداروں میں ان اہم موضوعات پہ مباحثہ کی خاطر بین الااقوامی کانفرنس منعقد کرانا قابل تحسین ہے۔
پہلی کا نفرنس جامعہ کراچی کے کیمپس میں دو دن تک جاری رہنے والی بین الاقوامی محفل مذاکرہ کا عنوان ” تنوع اور امن : سماجی تنوع کے لئے چیلنجیز“ دراصل ہماری نوجوان نسل اور معاشرے میں روادری ، قوت برداشت اورخود سے مختلف خیالات، مذاہب ، فرقے اور قومیت کی قدر کرنا تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد اجمل خان نے اس بین الاقوامی کا نفرنس کے افتتاح کے موقع پہ معاشرے میں رواداری کو فروغ دینے کی اہمیت پہ زور دیا۔ وائس چانسلر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے معاشرتی علوم کے شعبے کو خرا ج تحسین پیش کیا کیونکہ یہ کانفرنس اسکی فیکلٹی کے زیر اہتمام منعقد کرائی گئی۔ ڈاکٹر محمد اجمل کا خیال تھا کہ معاشرے کی اصلاح کی خاطر رواداری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ بین المذاہب اتحاد بھی لازمی ہے۔ انہوں نے اس امر کو اجاگر کیا کہ قانون کے احترام کے ساتھ ایک دوسرے کی ثقافت اور روایات کا احترام بھی معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے اہمیت کا حامل ہے، معروف ماہر تعلیم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ نوجوان نسل کی تربیت کی خاطر تعلیمی ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انکے خیال میں نوجوان نسل میں حس بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ غیررو ادار روئیے کو ردکر کے شدت پسندی کی لعنت سے دور رہ سکیں۔
جامعہ کراچی میں منعقد ہ اس اہم موضوع پہ کانفرنس میں مختلف ملکوں اورجا معات سے ماہرین تعلیم، علماءاور دانشوروں نے شرکت کی۔ پروفسیر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس کا نفرنس کے ذریعہ ہم یہ اہم پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو دہشت گردی ، شدت اور انتہا پسندی کو ختم کر نے کی خاطر تمام وسائل بروئے کا رلارہاہے۔
دوسری جانب ملک کے دوسرے حصے میں صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کو ئٹہ میں ”پاکستان اور انسانیت، اخلاقیات اور شہریت“ کے عنوان سے ایک تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں دیر پا امن کے قیام، طلبا ءکے کردار کی تعمیر، انسانی حقوق کے فروغ ، مذہبی اور سیاسی تنازعات کے حل کی خاطر اساتذہ کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ۔
ان اہم موضوعات پہ اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی خاطر سول سوسائٹی کے نمائندے، ماہرین تعلیم اور دانشواروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور طلباءمیں محبت ، اخوت، ایثار، بھائی چارے اور سماج کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی جستجو پید اکرنے میں اساتذہ کے کردار کو اجاگر کیا۔یہ تربیتی سیشن جامعہ بلوچستان نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے منعقد کرایا۔ مقرر ین میں ڈائریکٹر قانون سازی برائے پارلیمان ہاﺅس ڈاکٹر کاشف، ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن بلوچستان ، حبیب اللہ ناصر، ڈین سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ بلوچستان یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عبدالعلی اچکزئی، پروفیسر محمد حنیف باروزئی، وکیل ارباب طاہر، منیر حسین خٹک، فرخندہ ا سلم، پر وفیسر سعادت بلوچ اور دیگر شرکاءشامل تھے۔
ٹریننگ سیشن میں اساتذہ، طلباءاور سول سائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر کا شف نے کہا کہ طلباءکے کردار کی تعمیر معاشرے میں اہم مثبت تبدیلیوں کی ضامن ہے۔ انہوں نے شرکاءکو اس اطلاع سے بھی آگاہ کیا کہ پاکستان کی مختلف جامعات کے وائس چانسلروں پہ مشتمل ایک ٹریننگ سیشن کا انعقاد 20نومبر2012 کو اسلام آباد میں ہوگا۔ کوئٹہ میں منعقد ٹریننگ ورکشاپ میں بلوچستان یونیورسٹی کے طلباءکے علاوہ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات نے بھی شرکت کی۔ اس نوعیت کے ٹریننگ سیشن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے مقررین نے حکومت، ریاست اور تعلیمی اداروں کے مابین تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت پہ زور دیا۔ انہوں نے انسانی حقوق کے مضمون کو شامل نصاب کرنے کی تجویز پیش کی کیونکہ انسانی زندگی کی حفاظت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلب علموں کے درمیان ،تنازعات کو عاقل اور عادل انداز سے حل کرنا چاہیے۔ شرکائے گفتگو نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ معاشرے کے فروغ کی خاطر اور اس میں مثبت تبدیلیاں لانے کی خاطر خواتین کے بنیادی کردار کو سمجھنالازم ہے۔ اس مثبت تبدیلی کی ابتداءاپنے گھر ، خاندان اوراداروں سے ہوسکتی ہے۔
یہ خوش آئند امر ہے کہ اساتذہ اور تعلیمی اداروں نے وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا بیٹرا اٹھایا ہے۔ اساتذہ کا کردار ابہت اہم ہے۔ کیونکہ وہ تعلیم وتربیت کے ذریعہ اپنے طالب عملوں کے کردار کی تعمیر کرتے ہوئے انکے نا پختہ ذہنوں کو ایک فعال، محب وطن ، محنتی اور جفاکش انسان میں ڈھال سکتے ہیں۔جسکے اندر قوت برداشت بھی اوررو اداری بھی جو دوسروں کے نظر یات اور خیالات ، عقائد ،نسل ،رنگ، فرقہ اور مذہب سے اختلاف رکھنے کے باوجود منطقی استدلال اور مباحثے کے ذریعہ گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہونہ کہ مرنے مارنے پہ تل جائے۔ ہمارے معاشرے سے شدت پسندی اور انتہاءپسندی جیسے ناسور کو جڑسے اکھاڑ کر پھینکنے کا بہترین ذریعہ اور مرکز ،تعلیمی ادارے ہیں۔ اس لحاظ سے خود اساتذہ کوان لعنتوں سے پاک ہونا پڑے گاتاکہ وہ اپنے شاگردوں کے معصوم ذہنوں میں ابتداءہی سے ایسی مثبت سوچ پیدا کریں تاکہ وہ بہتر انسان ،شہری اور فرد بن سکے۔
معاشرے کی اصلاح میں تعلیمی اداروں کا کردار
Nov 12, 2017