ایک ایسے وقت میں جب خطرات نے وطن عزیز کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے‘ خطے میں پاکستان کیلئے ناساگار صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی اپنے مضمرات کے حوالے سے مکمل طورپر پاکستان دشمن پالیسی ہے۔ بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور امریکی ملی بھگت سے افغانستان میں پنجے گاڑنے کی کوششوں‘ سازشوں میں مصروف ہے‘ ایسے میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کا ایران کا دورہ جس اہمیت کا حامل ہے‘ پاکستان کے میڈیا نے اسے اس اعتبار سے قابل توجہ نہیں سمجھا نہ ہی وزیرخارجہ خواجہ آصف کے دورہ ایران اس کیلئے لائق توجہ رہا جو ٹرمپ کی پالیسی کے اعلان کے بعد کیا گیا جس میں پاکستان پر محفوظ پناہ گاہوں کا الزام لگایا گیا۔ اسکے مقابلے میں تحریک انصاف سے وابستہ مفتی عبدالقوی اور قندیل بلوچ کے معاملے کیلئے کہیں زیادہ وقت ہے۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ءسے 1979ءتک دونوں ملکوں کے تعلقات بہت مثالی رہے۔ آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے بعد مختلف اوقات میں یہ تعلقات نشیب و فراز کا شکار ہوتے رہے۔ 2004ءمیں جب ایران نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے جنگی تعاون کا معاہدہ کیا اور جس کے تحت بھارت کو ایران کے فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت و سہولت حاصل ہو گئی۔ دوست سمجھے جانیوالے ملک کے اس قدم پر پاکستان میں گہرا صدمہ محسوس کیا گیا۔ اس طرح جب ایران نے پاکستان کے راستے بھارت کو گیس فراہم کرکے اسکی معیشت کو استحکام بخشنے کا منصوبہ بنایا تو پاکستان کی حکومتوں کا طرزعمل اور مو¿قف کچھ بھی رہا ہو‘ عوامی سطح پر اس کیخلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان کے سعودی عرب سے بے حد قریبی تعلقات کے حوالے سے ایران ضرور بعض تحفظات کا شکار ہوا مگر ایران نے یہ مدنظر نہیں رکھا کہ سعودی عرب نے نہ صرف عالمی سطح پر ہمیشہ پاکستان کی غیر مشروط حمایت کی بلکہ کبھی مفت اور کبھی انتہائی سستا اور وہ بھی ادھار تیل دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ایسی صورت میں پاکستان کیلئے کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ وہ ایران کی خوشنودی کیلئے سعودی عرب سے تعلقات خراب کرکے خود کو حاصل ہونےوالے فائدہ سے محروم کر لے جبکہ ایران کی جانب سے مفت تو درکنار کبھی سستے نرخوں پر بھی تیل فراہم نہیں کیا گیا۔ اسکے باوجود یمن کے معاملے پر پاکستان نے سعودی عرب سے ناراضگی مول لیکر بھی غیرجانبداری کا طرزعمل اختیار کیا جو حمایت نہیں تو ایران کی مخالفت بھی نہیں کے مصداق ہے۔ عراق سے جنگ کے دوران ایران کو اس خاموشی سے مدد فراہم کی گئی کہ خود پاکستان کے عوام کو بھی ہوا نہیں لگنے دی گئی‘ تاہم بعض بین الاقوامی صورتحال اور خطے کے حالات نے کچھ غلط فہمیاں ضرور پیدا کی ہیں۔ پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباس پھر وزیرخارجہ خواجہ آصف اور اب آرمی چیف کے دورہ سے یہ غلط فہمیاں دور کرنے کی راہ ہموار ہوگی اور تعاون و مفاہمت کے نئے راستے کھلیں گے۔ جنرل قمر باجوہ نے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب‘ قطر اور ابوظہبی کا دورہ کیا حالانکہ سعودی عرب اور قطر کے آپس میں مسائل ہیں۔ پاکستان نے سب سے قریبی دوستانہ رابطہ رکھا ہوا ہے۔ ایرانی قیادت کو اس سلسلے میں کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کے آرمی چیف کا تین روزہ طویل دورہ ہے جس میں سول اور ملٹری قیادتوں سے تفصیلی بات چیت ہوئی۔ کچھ دشمن جن میں بھارت پیش پیش ہے اور انکے آلہ کار غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوششیں ضرور کر رہے ہیں‘ لیکن ایرانی قیادت اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ پاکستان کےساتھ معاندانہ تعلقات اسکے مفاد میں نہیں۔ نہ ہی ایران سے بگاڑ پاکستان کے حق میں ہے۔ ایران نے سائنس کے میدان میں جو ترقی کی‘ پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان نے میزائل سازی اور دیگر ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی۔ ایرانی اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ بالخصوص پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف حیرت انگیز طورپر بڑی سرعت سے کامیاب جنگ لڑی۔ نیشنل ایکشن پلان‘ ضرب عضب اور ردالفساد کے تحت آپریشنز سے ہونیوالے کامیاب تجربات سے ایران فائدہ اٹھا سکتاہے۔ صدر روحانی نے بجلی اور گیس کی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔ متعلقہ حکومتی حکام کو اس پر بات آگے بڑھانی چاہئے۔ فوج نے افغانستان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ پاکستان کی مستقل اور پرعزم پالیسی ہے کہ اپنی سرزمین ایران کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ ایران کی ذمہ داری ہے کہ وہ 2004ءکے معاہدے کے باوجود بھارتیوں کو کھلی چھٹی نہ دے۔ گلبھوشن ایران میں بیٹھ کر بلوچستان میں پاکستان دشمن نیٹ ورک چلاتا رہا۔ عزیر بلوچ ایرانی انٹیلی جنس کیلئے کام کرتا اور پاکستان کی فوجی تنصیبات کے حوالے سے معلومات فراہم کرتا رہا۔ تصور کیا جا سکتا ہے آرمی چیف نے ایسے مسائل ضرور اٹھائے ہونگے اور انکے دورے کے حوالے سے ایرانی حکام اور میڈیا کا جو بہت مثبت رویہ سامنے آیا ہے‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے دونوں ملک کو درپیش معاملات اور مسائل کے سلسلے میں بہتر مفاہمت کی بیل پروان چڑھی ہے۔
دریں اثنا جو ایک اورصورتحال پیدا ہوئی ہے‘ وہ بھی پاکستان کے حق میں یوں ہے۔ ایران نے اپنے گیس فیلڈ میں روس کو حصہ دیا ہے۔ اس کیلئے پائپ لائن گوادر کے نزدیک سے گزرے گی اس لئے روس بھی چاہے گا یہاں دہشت گردی نہ ہو۔ اس حوالے سے روس کی جانب سے بھارت پر افغانستان میں منفی کردار سے باز رہنے کا دباﺅ بھی پڑ سکتا ہے۔ ویسے بھی بھارت افغانستان میں اپنے مفادات کو امریکہ کے تابع کر چکا ہے جو اس کے روس سے فاصلے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے لندن کی ٹیکسوں پر پاکستان دشمن پوسٹرز کے معاملے پر ہائی کمشنر کی دفترخارجہ طلبی اور احتجاج پر برطانوی حکام نے یہ سلسلہ ختم کرانے کا یقین دلایا ہے‘ لیکن سوئٹزرلینڈ کی حکومت اور عدالت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ جرمنی اور برسلز کے بعد دیگر یورپی ملکوں میں یہ سلسلہ پھیلانے کیلئے بھارتی ایجنسی ”را“ عیاش بلوچ نوجوانوں کو استعمال کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ”را“ اس سے دو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ایک تو بلوچستان کی خراب صورتحال کا پراپیگنڈا کرکے سی پیک میں رخنہ ڈالا جائے‘ دوسرا مخدوش حالات سے خوفزدہ ہوکر غیرملکی سرمایہ کار گوادر یا سی پیک میں سرمایہ کاری نہ کریں۔ دوسرا امریکہ‘ کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک میں کشمیریوں اور سکھوں کے بڑھتے ہوئے بھارت مخالف مظاہروں سے توجہ ہٹائی جائے۔ ان مظاہروں میں پاکستانیوں کی جانب سے اظہاریکجہتی کا سلسلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ کاش پاکستان کے سفارتخانے بھی کوئی مو¿ثر کردار ادا کر سکتے۔ بہرحال بلوچستان کے سیاستدانوں‘ دانشوروں اور صحافیوں کے وفود ان ممالک کا دورہ کریں۔ وہاں ملاقاتوں اور کانفرنسوں میں خطاب کرکے پُرامن بلوچستان اور بھارتی سازشوں کا چہرہ اجاگر کریں۔ کینیڈا میں مقیم خالصتان تحریک کے سربراہ سردار گرومیت سنگھ نے پاکستان سے سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی مدد کی جو اپیل کی ہے‘ اس پر توجہ دی جائے کیونکہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے‘ باتوں سے نہیں مانے گا۔جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے بھانجے طلحہ رشید کی ہلاکت کا بھارتی دعویٰ اور آرمی چیف کا واویلا بھارتی ڈراموں کی سیریز کا حصہ ہے‘ تاہم اگر یہ درست بھی ہے تو ہو سکتاہے کہ یہ بھارتی ذرائع کے مطابق ان 240 افراد میں شامل ہو جنہیں حریت پسندوں کا روپ دھارکر بھارتی انٹیلی جنس کے لوگ وہاں لے گئے اور گرفتار کر لیا جن میں سے کسی ایک کو ہلاک کرکے پاکستان کو بدنام کیا جاتا ہے جیسے اجمل قصاب بھارتی ایجنسی کے قبضہ میں تھا۔ جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے‘ان کی تحریک آزادی ایک ہزار فیصد پُرامن ہے جبکہ بھارت کی کوشش ہے اس میں رنگ بھرے اور اسے دہشت گردی قرار دیکر عالمی برادری کو گمراہ کیا جائے۔ اسی لئے کشمیریوں نے ممکن ہونے کے باوجود بندوق نہیں‘ ہاتھوں میں پتھر اٹھا رکھے ہیں۔