فلسفہ اقبال اور نوجوان

برصغیر پاک و ہند کی زمین بڑی زرخیز ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے‘ کسی بھی براعظم کو لے لیجئے‘ زمان و مکاں‘ رنگ و نسل اور زبان سے بالاتر ہوکر دیکھیں تو افکار اور خیالات اصل میں انفرادی طورپر افراد کی بلکہ اجتماعی طورپر قوموں کی شناخت کا محرک نظر آرہے ہیں۔ وہ بنیادی آئیڈیالوجی جو کسی قوم کی تحریک اور کسی قوم کی اکائی بنتی ہے‘ اس کا تعارف ‘ دیواریں‘ عمارتیں‘ دریا‘ پہاڑ یا میدان نہیں بلکہ مفکرین‘ اکابرین و مشاہیر پیش کرتے ہیں۔ مظاہر قدرت و ریاستی و ملکی محفل وقوع جغرافیائی حیثیت میں اہم ہیں‘ لیکن قوموں کا بننا‘ قوموں کا ٹوٹنا‘ قومی تشخص اور قومی بقاءہمیشہ سے قوموں کے کسی نہ کسی فلسفہ¿ حیات بلکہ کسی ضابطہ¿ حیات کا متقاضی رہا ہے۔ اگر کسی ریاست کے افراد کے پاس ان کا فلسفہ حیات نہیں‘ دستور زندگی نہیں یا ریاست کسی آئیڈیالوجی سے تہی دامن ہے تو اسکی حیثیت بھیڑوں کے ایک ایسے ریوڑ کی سی ہے جن کا مقصد محض کھانا پینا ہے ....ع
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
علامہ محمد اقبال نے یہ بات اس وقت محسوس کی جب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مسلمانی پر ضرب آنے لگی۔ سرکاری سطح پر مسلمان کا استحصال شروع ہو گیا۔ تعلیمی اداروں میں بندے ِماترم کے ترانے اور گﺅماتا کی جئے کے نعرہ مسلمان کے ایمان کا امتحان بن گئے۔ تو اس وقت اقبال نے جو شاعری کی اور محمد علی جناح کو جتنے خطوط لکھے سب میں آپ نے برصغیر میں مسلمانوں کو ایک مختلف قوم بیان کیا۔ ہندو اور انگریز سے یکسر مختلف قوم۔ ایک ایسی قوم جس کے پاس ایک اپنا عظیم دستورِحیات‘ اپنا فلسفہ¿ زندگی اور اپنی عالیشان آئیڈیالوجی ہے۔ اقبال کے نزدیک برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کیلئے اپنے عقائد کی پاسبانی‘ اپنے نظامِ حیات کی کامیابی اور اپنے دستورِ زندگی کی بقاءکیلئے ضروری تھا کہ وہ ایک علیحدہ قومی حیثیت سے دنیا میں اپنی پہچان آپ بنے ”تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں “ پہاڑوں کی چٹانیں بلندی کی علامت ہے اور مسلمانوں کے پاس جو آئیڈیالوجی اقبال کےمطابق موجود ہے‘ یہی تو اسلامک آئیڈیالوجی ہے جو سرزمین پاک کی وجہ تشکیل اور برصغیر میں دو قومی نظریئے کی بنیاد بنی۔ اقبال نے سرسید احمد خان کی سکول آف تھاٹ کو نہایت مو¿ثر انداز میں ترویج کی۔ اس وقت کے انگریزی اخبارات نے اقبال کے دو قومی نظریئے کو ابھارتے افکار و خیالات کی خوب مخالفت کی۔ اسلامک آئیڈیالوجی کو دیوانے کا خواب قرار دیا۔ انگریز پل پڑے کہ اقبال مسلمانوں کو باغی بنا رہا ہے۔ اقبال اورمحمد علی جناح کے خیالات کی ہم آہنگی اور تصور پاکستان پر آمادگی باہم نے کانگریس کے رویئے کو برصغیر کے مسلمانوں کیلئے سخت کر دیا۔ کانگریس نے کہنا شروع کر دیا کہ جناح اقبال کا ترجمان ہو گیا ہے اور وہ ایک علیحدہ ریاست پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ ہندو اور انگریز سب کا خیال تھا اسلام متحدہ ہندوستان میں ایک علیحدہ ریاست کی بنیاد بن چکا ہے اور پاکستان کی صورت میں جناح ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لانے کیلئے بھرپور جنگ لڑ رہے ہیں۔ اقبال کا تو تصور پاکستان اسلامی ریاست کا قیام اور دو قومی نظریئے کی حمایت و تقویت تھا جو پاکستان دنیا کی دوسری بڑی ریاست ہے جو مذہبی بنیاد پر معرض وجود میں آئی جس کی بنیاد میں نعرہ تکبیر کی صدا اور لاالہ الااللہ کی سربلندی کا عزم ہے کہ نہ ریاستیں تو طاقت اور ہتھیاروں سے جیتی گئی تھیں‘ شاید یہ پاکستان وہی ریاست ہے جس کی موجودگی نے پورے عالم کے بُت پرستوں اور یہودوہنود کیلئے ایک چیلنج بن جانا تھا جسے مسلمان ممالک کی پہلی اٹامک انرجی سے لیس ریاست بننا تھا یا پھر شاید یہ وہی ریاست ہے کہ جسکے بارے میں سرور کونین‘ سرکار دوعالم محمد مصطفی نے فرمایا تھا کہ ”مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوا محسوس ہو رہی ہے۔“ پاکستان ایک عظیم ریاست ہے۔ ایک عظیم ملک ہے۔ آج وطن عزیز پاکستان اندرونی و بیرونی لاتعداد مسائل میں گھرا ہے۔ نہیں بلکہ میری سرزمین وطن کو اندر لوٹ مار مچانے والوں‘ بے حس‘ بے ایمانوں سے زیادہ خطرہ ہے جن کے ایمان دولت کی کھنکھناہٹ سنتے ہی ڈول جاتے ہیں۔ جو کالاباغ ڈیم‘ سیاچین گلیشئر اور کشمیر کی حریت کے حق کے مسائل پر اپنی سیاست چمکاتے اور بک جاتے ہیں۔ ایسے ہی لٹیروں سے پاکستان کو خطرہ ہے بلکہ سچ پوچھیں تو آج جو یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں لاقانونیت عام ہو چکی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بدعنوانی اور چور بازاری عروج پر ہے۔ ناجائز قبضے‘ بھتہ خوری اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کی کوئی سزا نہیں تو یہ سب سچ ہے۔ سچ ہے کہ ملک دیوالیہ ہے‘ ہمارے ادارے موقع پرستوں اور ضمیر فروشوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں‘ لیکن عبدالستار ایدھی جیسے خدمت گزار بھی تو اسی دھرتی کے پروردہ ہیں۔ لاکھوں نہ سہی‘ ہزاروں ایسے گداز دل والے سیلاب زدگان و زلزلوں سے متاثرین کی امداد کیلئے اپنے دن رات کا آرام ترک کر بیٹھتے ہیں۔ کچھ بھی ہے‘ پاکستان کی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے اور وطن کا فوجی دشمن سے لڑنے کیلئے نہیں بلکہ حصول شہادت کیلئے بے دھڑک ہوکر لڑنے کو تیار رہتا ہے۔ یہ صرف پاکستانی فوج ہے کہ جو اپنی موت کو شہادت اور شہادت کو سعادت سمجھتی ہے تو ایسی قوم کو شرمندہ نہیں بلکہ قابل فخر بن کے جینا چاہئے۔ ابھی صرف تین روز قبل ملک پاک میں علامہ محمد اقبال کا 140 واں یوم ولات بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ ہم سب نے اقبال کی شخصیت کے مختلف پہلوﺅں پر روشنی ڈالی اور حکیم الامت کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا۔ ہم نے تعلیمی اداروں میں 9 نومبر کو منعقدہ تقاریب میں اپنی کوتاہیوں کا اور وطن کے ایک ٹکڑے کے کٹ جانے کے سانحے کا ذکر کیا۔
یہ درست ہے کہ ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ ہم نے قائداعظم و علامہ اقبال کے افکار و خیالات کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے میں بے اعتنائی برتی ہے۔ ہم نے رہنمائی کے وہ اصول بالائے طاق رکھے جو اصول ریاستی وقار و استحکام کا موجب بنتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کو باپ کا مال سمجھا اور خوب اڑایا‘ مگر ہم ابھی بھی ناامید نہیں کہ اقبال اپنے شاہین بچوں سے بڑی امیدیں رکھتے ہیں۔ ہمارے نوجوان یقینا ہمارا حوصلہ ہیں۔ وہ اپنے بڑوں کی کوتاہیوں کو بھی دور کر دینگے۔ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کے استعمال سے وطن عزیز کو تمام بداعمالیوں سے پاک کر دیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...