مجھے انقلابی کتابوں میں دھر دے جفا کی علامت کو کچھ دور کردوں
نہیں سنتے ہو کیوں بھلائی کے موسم تجھے اپنا کہنے پہ مجبور کردوں
کہ ڈالی پرندوں سے لگتی حسیں تر‘ کوئی شاخ توڑے میں منظور کردوں
جو زندہ سپاہی کی ہے ایک بیٹی اسے کہہ رہے ہیں بے مقدور کردوں
تباہی اٹھا دی‘ تباہی مچادی‘ تباہی نبھا ڈالوں مغرور کردوں
لپیٹوں‘ سمیٹوں‘ بکھیروں‘ ادھیڑوں‘ دلبر فسانہ ہے منشور کردوں