دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی شخصیت کو کسی بھی مملکت کے سربراہ بننے کے تین مواقع بہت کم ملے ہیں۔ ہماری تاریخ میں یہ صرف میاں نوازشریف کے ساتھ ہوا۔ بے نظیر بن سکتی تھیں مگر زندگی نے ان کی اس خواہش کا ساتھ نہ دیا۔ 17 ویں ترمیم کے ذریعہ کسی بھی رکن اسمبلی کی تیسری بار بطور وزیراعظم بننے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ تو بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان معاہدے کا نتیجہ تھا کہ یہ پابندی ایسے شیڈول میں ڈالی گئی جو دس سال بعد ختم ہو سکتی تھی۔ بے نظیر بھٹو کو تو اس کا فائدہ نہ ہوا تاہم میاں نوازشریف کے لئے یہ بارآور ہوئی۔ ویسے یہ پابندی ان دونوں کا راستہ روکنے کے لئے ہی لگائی گئی تھی۔ گو ظفراللہ جمالی بھی اس کی زد میں دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے کے باعث آ رہے تھے مگر سیاسی مصلحت کے تحت خاموشی سے قانون میں ترمیم کر دی گئی تھی۔ گذشتہ کالم میں اس بات کا ذکر تھا کہ میاں نوازشریف نے اپنی پہلی حکومت ختم ہونے سے قبل جذباتی تقریر کی تھی جس کا متن کچھ یوں تھا۔ یہ تقریر 17 اپریل 1993ءکو ریڈیو اور ٹی وی پر کی گئی تھی۔
میاں نوازشریف نے کہا کہ ”گذشتہ ایک ماہ سے بعض عناصر نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت بے یقینی کی جو فضا قائم کر رکھی ہے اس کے زہریلے اثرات اب نمودار ہونے لگے ہیں۔ سیاسی سازشوں کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کے لئے کئے گئے سارے کئے دھرے پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔ عوام بے چین ہے اور مضطرب ہیں کہ نہ جانے چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ جذباتی انداز میں ان کا کہنا تھا کہ ”آخر میرا جرم کیا ہے۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے اپنے 12 حامی ممبران قومی اسمبلی (ایم کیو ایم) کو گنوا کر پورے سندھ کو امن کا گہوارہ بنا دیا اور اس ضمن میں افواج پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے پورے پاکستان میں سڑکوں اور صنعتوں کا جال بچھایا اور غریبوں پر روزگار اور خوشحالی کے دروازے کھولنے کی کوشش کی۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے بے گھروں کو رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے ان ہاتھوں کو جو بیروزگاری سے تنگ آ کر کلاشنکوف اٹھانے والے تھے‘ انہیں پیداواری کاموں پر لگایا۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے بے زمین ہاریوں کو غلامی کی زندگی سے نجات دلا کر انہیں زمینوں کا مالک بنایا۔ انہیں باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کا موقع دیا۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں اسلام آباد کے حکومتی ٹھاٹ باٹ چھوڑ کر اس غریب بچی کا بھائی بن کر اس کی جھگی تک پہنچ گیا جس کے ساتھ ظلم کیا گیا۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے سیلاب کے ساتھ ساتھ سفر کر کے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں بہنوں اور بیٹیوں کا ساتھ دیا اور پہلی مرتبہ انہیں احساس دلایا کہ وہ اپنے وطن میں بے یارومددگار نہیں بلکہ ان کا وزیراعظم ننگے پا¶ں ان کے ساتھ ہے جو ان کے کچے گھروں کی بیٹھ جانے والی دیواریں دوبارہ اٹھانے کے لئے اپنے ہاتھوں سے مٹی نکالنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتا۔ کیا میرا جرم یہ تھا کہ میں نے انسانوں کو سائیکل رکشوں میں حیوانوں کی طرح استعمال سے روکا۔ انہیں آٹو رکشہ اور ییلو کیب ٹیکسی دی اور ان کو انسانی زندگی میں واپس آنے کی سہولت دی۔ اس کے بعد میاں صاحب نے اپنے اصلاحی اقدامات کی تفصیل بتائی اور اعلان کیا کہ وہ عوام اور جمہوریت کی خاطر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
انہوں نے کہا میں قومی بحران ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن اسے مزید سنگین بنانے والے اقدامات دستور کی پاسداری کرنے والے مقام سے کئے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہاں قائد ایوان (وزیراعظم) کا انتخاب لڑا جا رہا ہے۔ بلیک میلنگ اور بدترین ہارس ٹریڈنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ میری عدم موجودگی میں سازشوں کے طوفان اٹھائے گئے۔ میرے ہر تیسرے ساتھی کو اراکین اسمبلی کو ساتھ ملا کر وزیراعظم بن جانے کا کہا گیا۔ شہباز شریف تک کو یہ پیشکش کی گئی۔ اس وقت پندرہ وزیراعظم اپنے لئے اسلام آباد میں وزرا کی تلاشی میں مصروف ہیں۔
ہم نے بزرگوں کا ادب کرنا سیکھا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں خود کو کسی کا محتاج یا ماتحت بھی مان لوں۔ اگر میں پسپائی پر آمادہ ہوگیا تو ان کروڑوں عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی جو 45 سال بعد امید کی وادی میں داخل ہوئے۔ میں کسی کمزوری، کوتاہی اور پسپائی کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ میں نہ استعفیٰ دوں گا نہ اسمبلی توڑوں گا اور نہ ڈکٹیشن لوں گا۔“
وزیراعظم نوازشریف کی اس تقریر سے ملک میں یکسوئی قائم نہ کرسکی بلکہ غیر یقینی صورت حال میں اضافہ ہوگیا۔ ہر کوئی پوچھ اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔ ایسے میں اگلے روز یعنی اتوار کے دن کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا میاں نوازشریف کی تقریر کو سرکاری طور پر عوامی امنگوں کی ترجمان تقریر قرار دیا گیا اور اسی تجویز پر غور کیا گیا کہ اگلے اجلاس میں صدر غلام اسحق خان کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کروائے ان کو آئینی طور پر فارغ کردیا جائے۔
18 اپریل ہی کو صدر اسحق خان نے اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت اسمبلی برخاست کردی۔ قومی اسمبلی کی برخاستگی کے بعد مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ سپیکر گوہر ایوب نے اسمبلی توڑنے کے صدارتی حکم کو عدالت میں چیلنج کردیا۔ 26 مئی 1993ءکو سپریم کورٹ نے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو مسترد کردتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کی زندگی قانون کے مطابق ہونی چاہیے نہ کہ غیر قانونی طریقے پر۔
میاں نوازشریف کی حکومت تو بحال ہوگئی مگر حکومت چل نہ رہی تھی سارا ملک رک سا گیا تھا۔ ملک کے چند سیاستدانوں نے صدر اور وزیراعظم کے درمیان مصالحت کی ہر ممکن کوشش کی مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکا۔ کشیدگی بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ایسے میں فوج کے سپہ سالار نے شٹل ڈپلومیسی شروع کی۔انہوں نے پہلے وزیراعظم سے 5 جولائی کو ملاقات کی۔ پھر صدر اسحاق خان کے ساتھ جنرل وحید کاکڑ نے وزیراعظم سے دوبارہ ملاقات کی پھر صدر کے ساتھ ملاقات ہوئی۔
بعد ازاں جنرل وحید کاکڑ فاروق لغاری سے بھی ملاقات کرچکے تھے۔ وحید کاکڑ اور میاں نوازشریف صدر اسحاق خان سے اکٹھے ملے۔ میاں نوازشریف کے رویہ میں کوئی لچک نہ تھی وہ کہہ رہے تھے میں اسمبلی نہیں توڑوں گا اگر کسی اور نے توڑنی ہے تو توڑ دے۔ جنرل وحید کاکڑ نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ غیر اعلانیہ ملاقات کی اور غالباً یہ طے پایا کہ صدر مملکت رخصت پر چلے جائیں۔ نواز شریف اسمبلی توڑ کر کسی دوسرے کو نگران وزیراعظم بنا دیں اور فوج تمام معاملات کی ضامن بن جائے۔ بے نظیر لانگ مارچ کرنا چاہتی تھیں ان کو جنرل کاکڑ نے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ قصہ مختصر 18 جولائی کو اسمبلی بھی آئینی طور پر ٹوٹ گئی۔ صدر اور وزیراعظم دونوں گھر چلے گئے اور مارشل لاءبھی نہیں لگا۔ ملک کی موجودہ صورت حال بھی بے یقینی اور تصادم کی راہ پر چل رہی ہے۔ گو مارشل لاءکا کوئی امکان نہیں مگر بحران حل ہوتا بھی نظر نہیں آرہا۔ پیر کے روز سے ایک نیا مقدمہ سپریم کورٹ کے سامنے ہو گا۔
نوٹ: گزشتہ کالم میں تقریباً دو سطور آگے پیچھے ہونے سے تاریخی حقائق ہی بدل گئے تھے۔ قائداعظم 11 ستمبر 1948تک اسمبلی کے صدر رہے تھے بعد ازاں مولوی تمیزالدین 1954 تک اس عہدہ پر متمکن رہے۔