جناب آصف علی زرداری نے تو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں ہتھیار ہی ڈا دئیے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو مکمل سپورٹ دینے کا یقین دلا دیا ہے۔ اب دیہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ زرداری صاحب کا سیاسی ٹرن ے یا انہیں خاموش رہنے کے لئے کہا گیا ہے۔صرف یہی نہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر سے بھی یہ آواز آئی ہے کہ عمران خان کو 6 ہفتے یاکچھ وقت دیا جائے۔ یہی جو اب مولانا فضل الرحمٰن کو دیا گیا کہ اس قدر جلد متحدہ اپوزیشن کی کانفرنس سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوںگے۔ اس بنا پر کانفرنس منعقد بھی نہ ہوسکی۔
پاکستان میں بلکہ دنیا بھرکے سسٹم میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک رول ہونا ہے۔ یہ رول امریکہ میں بھی ہے اور بھارت میں بھی۔ اب بھی عمران خان کی حکومت مانیٹرنگ جاری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہی رائے ہو گی کہ فوج آ نہیں سکی اور روز روز الیکشن ممکن نہیں ہیں اس لئے چلنے دو… یہ بات بھی ہماری رائے میں درست ہے کہ کسی نہ کسی طرح / اسٹیبلشمنٹ کا اپوزیشن سے رابطہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک کو ہینڈل کرنا جس کی سلامتی کے معاملات ہوں بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ بھارت کی دشمنی اور خود آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا کہ عالمی طور پر بھی پاکستان کے لئے خطرات ہیں۔ معلوم ہوا کہ عمران خان کو چند نوبل گئے ہیں۔ اس دوران ان کی حکومت کو بڑے پیمانے پر تنگ نہیںکیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ سو دن پورے ہونے پر بڑا غبار اُٹھے گا۔ بہت شور و غل ہو گا…عمران خان نے عوام سے جنت کے وعدے کر لئے اب پورے کریں تو کیسے کریں؟ سو دنوں کا پروگرام بھی بڑی دھوم سے پیش کیا گیا۔ اب دن قریب آ رہے ہیں۔ عمران خان کو اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان ساری باتوں کے باوجود اس حقیقت کو ماننا پڑے گاکہ عمران خان شب و روزمحنت کر رہے ہیں…وہ تو Trained ہیں۔ علم کا شعور بھی ہے مگر تجربے کار ٹیم نہ وفاق میں ہے، نہ پنجاب میں ، اس لئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ سیکورٹی کے مسائل حسب معمول آرمی دیکھ رہی ہے۔ اپوزیشن سے ادارے نمٹ رہے ہیں، معاشی استحکام اور گڈ گورننس فراہم کرنا عمران خان اور اُن کی حکومت کا کام ہے۔ بظاہر حکومتِ پاکستان میں جو پختونستان حکومت عمران خان نے بنائی ہے وہ ڈیلیور بھی کرے گی۔ کوئی پتہ نہیں…داخلہ، دفاع جس میں اب PIA بھی شامل ہے، اسپیکر اور دوسرے جنہوں پر پختون بھائی فائز ہیں۔
پاکستان کو معاشی مسائل بھی درپیش ہیں، اُس کیلئے وزیراعظم عمران خان بہت دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔ سعودی عرب کے دو دورے اور چین کا دورہ اس سلسلہ میں ہے۔ IMF کے ذمے داروں سے بات چیت جاری ہے۔
مولانا فضل الرحمن کو عمران خان کی حکومت پر سخت غصہ ہے۔ اُن کا کیس چلے تو ابھی تحریک شروع کردیں۔
؎غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفاں کئے ہوئے
البتہ یہ بات درست ہے کہ زرداری صاحب اور نواز شریف مولانا فضل الرحمن کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ صدرِ پاکستان کے الیکشن میں زرداری صاحب نہ جانے کیوں اپنی جماعت کے اعتزاز احسن پر اڑ گئے۔
صورتحال جو بھی ہو مستقبل قریب میں عمران خان کی حکومت کو نہ کوئی خطرہ ہے، نہ تحریک چلے گی، نہ اپوزیشن کی کانفرنس ہو گی…یہ بھی تو ممکن ہے کہ اس عرصے میں عمران خان اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ حکومت کو استحکام حاصل ہو گیا تو کئی برس جاری رہ سکتی ہے۔ اپوزیشن سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہ تو ہوتا ہے کہ عمل ہو گا تو پھر ردعمل بھی ضرور ہوتا ہے۔ محنتی اور لائق عمران خان اپنی محنت اور کارناموں سے تاریخ بنا سکتا ہے۔
عمران خان کی حکمرانی میں اپوزیشن کی رعایت
Nov 12, 2018