احمد جمال نظامی
فیصل آباد اپنے چوک گھنٹہ گھر کی وجہ سے پورے پاکستان میں مشہور ہے بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کو شناخت حاصل ہے۔ اس کی وجہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کا آٹھوں بازاروں کے سنگم میں واقع ہونا ہے اور گھنٹہ گھر سے ملحقہ ہر بازار کے دامن میں کئی کئی بازار اور گلیاں واقع ہیں لیکن آپ کسی بھی جگہ سے اپنی نظر چوک گھنٹہ گھر کی طرف دوڑائیں تو آپ کو گھنٹہ گھر نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف نے اپنے اپنے ادوار میں جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا تو ان کی آمریت کو فیصل آباد کے چوک گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی جاتی رہی کہ گھوم پھر کر سارے اختیارات کا مرکز یہی فوجی آمر ٹھہرتے تھے جیسے گھنٹہ گھر سے ملحقہ آٹھوں بازاروں سے گھوم پھر کر جہاں بھی دیکھیں گھنٹہ گھر نظر آتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل چوک گھنٹہ گھر کو اس مقصد کے لئے تعمیر کیا گیا تھا کہ اس وقت شہر کی آبادی چونکہ زیادہ گنجان آباد اور پھیلی ہوئی نہیں تھی اس لئے شہر کے رہائشی گھنٹہ گھر کی صورت میں وقت کا اندازہ لگا سکیں اور گھنٹہ گھر پر لگی ہوئی گھڑی سے انہیں وقت کا اندازہ ہو سکے۔ چوک گھنٹہ گھر سے پہلے یہاں ایک پانی کا کنواں بھی ہوا کرتا تھا لیکن لوگ زیادہ تر باغ جناح کے بالمقابل ٹھنڈی کھوئی سے پانی حاصل کیا کرتے تھے۔ اس وقت ٹھنڈی کھوئی کے مقام پر ایک جامع مسجد بھی موجود ہے۔ ٹھنڈی کھوئی کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد اسے استعمال کیا کرتی تھی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھنٹہ گھر سے ملحقہ آٹھوں بازاروں میں رہائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور اب چند اکادکا مقامات اور چنیوٹ بازار کے بالمقابل جہاں جماعت اسلامی کا دفتر واقع ہے اس کے علاوہ کہیں رہائش یا مکان نظر نہیں آتے البتہ کچھ ہوٹلوں اور دکانوں پر دوسرے شہروں سے کام کے لئے مزدور ان ہوٹلوں یا دکانوں کی چھتوں پر رات کو سوتے ہیں اور اس طرح سے انہوں نے اپنی عارضی رہائش قائم کی ہوئی ہے۔ بات کا مقصد یہ ہے کہ گھنٹہ گھر اور اس سے ملحقہ آٹھوں بازار بلکہ ان کے قرب و جوار میں واقع شاہراہیں بھی مارکیٹ کا روپ دھار چکی ہیں اور وقت نے ایسا پلٹا کھا لیا ہے کہ اب شہر کی آبادی کینال روڈ، مدینہ ٹاؤن، جڑانوالہ روڈ، سمندری روڈ، جھنگ روڈ، چک جھمرہ روڈ، شیخوپورہ روڈ اور دیگر اطراف کی طرف رخ مڑ گیا ہے لیکن گھنٹہ گھر اس سے ملحقہ آٹھوں بازار اور قرب و جوار کی شاہراہوں پر اس قدر ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل پیدا ہو چکے ہیں کہ اب عام شہری بھی دن کے اوقات میں بغیر کسی کام کے ان مقامات پر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا البتہ جسے کوئی کام یا غرض ہو وہ ان مقامات پر ضرور جاتا ہے۔ ان مقامات پر ہزاروں کی تعداد میں تاجر اور ان کے ملازمین موجود ہیں۔ فیصل آباد میں قائم ایشیا کی سب سے بڑی سوترمنڈی بھی انہی آٹھوں بازاروں میں سے ایک بازار منٹگمری بازار میں قائم ہے جبکہ کپڑے کی ہول سیل کا کاروبار بھی انہی بازاروں اور ان بازاروں کی گلیوں میں ہوتا ہے لیکن ان بازاروں اور ان کے قرب و جوار میں واقع شاہراہوں پر ٹریفک کے مسائل حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے گھنٹہ گھر اور اس سے ملحقہ آٹھوں بازاروں میں کاروبار بھی بڑی حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے ہر دور میں کوئی نہ کوئی تجویز سامنے آتی ہے۔ سابقہ دورحکومت میں جب شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو شہر کے تاجروں کی طرف سے بار بار پارکنگ پلازے کی تعمیر کا مطالبہ کیا گیا اور پھر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نورالامین مینگل نے سابق میئر ہاؤس کی جگہ پر پارکنگ پلازہ تعمیر کرنے کے منصوبے کی صوبائی حکومت سے منظوری حاصل کی اور اس منصوبے پر کام کا آغاز بھی ہو گیا لیکن چند عرصے بعد یہ منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا حالانکہ اس منصوبے پر حکومت لاکھوں روپے صرف کر چکی ہے۔ پارکنگ پلازے کا ڈھانچہ اور بیم وغیرہ بھرے جا چکے ہیں مگر اس کا کام مسلسل کئی سالوں سے التوا کا شکار ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ ہے گھنٹہ گھر اور اس سے متصل علاقوں اور بازاروں میں ٹریفک کے مسائل میں بدرجہ اتم اضافہ جاری ہے بلکہ ان بازاروں اور ان کے قرب و جوار میں واقع دیگر شاہراہوں، علاقوں، ضلع کچہری، سرکلر روڈ، کوتوالی روڈ، ریلوے روڈ اور دیگر مقامات پر پارکنگ کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے۔ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ضلع کچہری کا رخ کرتے ہیں لیکن پارکنگ کے مسائل نے ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے دوراقتدار میں فیصل آباد میں کئی تعمیروترقی کے منصوبے شروع کئے گئے جن کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا گیا لیکن سابق میئر ہاؤس کی اراضی پر پارکنگ پلازے کی تعمیر کا منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا جس پر شہر کی تاجر برادری وکلاء اور ہر مکتبہ فکر کی طرف سے بار بار مطالبہ سامنے آتا ہے کہ حکومت فوری طور پر پارکنگ پلازے کی تعمیر مکمل کرے۔ فیصل آباد کی تاجر برادری متواتر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور فیصل آباد کی ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ پارکنگ پلازے کی تعمیر کو فوری طور پر شروع کر کے مکمل کیا جائے تاکہ شہر کے وسطی علاقوں سے ٹریفک کے بوجھ اور پارکنگ کے مسائل کو ختم کیا جا سکے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پارکنگ کمپنی اب تک ان علاقوں میں اپنے فرائض بخوبی سرانجام دینے میں ناکام ہے جس کی وجہ سے اکثر پارکنگ کے مسائل پر لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں اور گھنٹہ گھر سے ملحقہ آٹھوں بازاروں میں دن کے اوقات میں گزرنا جوئے شیر لانے کے مترادف قرار پاتا ہے۔ موجودہ ڈپٹی کمشنر سردار سیف اللہ ڈوگر حال ہی میں فیصل آباد میں تعینات ہوئے ہیں۔ فیصل آباد پنجاب کادوسرا بڑا شہر ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا گڑھ ہونے کی بناء پر اس شہر کی اہمیت کو کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ نئے ڈپٹی کمشنر پر فیصل آباد کے ضلعی انتظامیہ سے متعلقہ مسائل حل کرنے اور تعمیروترقی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے پیش نظر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ وہ فیصل آباد میں اپنی تعیناتی کے دوران کس حد تک شہریوں کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ سابقہ حکومت کے دور کے آخری ایام میں جس بلدیاتی نظام کے تحت بلدیاتی نمائندوں کو سامنے لایا گیا وہ بالکل بے اختیار ہیں اور ان کی طرف سے جو اختیارات ان کے پاس موجود ہیں اس کو بھی صحیح معنوں میں استعمال کرتے ہوئے عوامی مسائل حل نہیں کئے گئے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کی تاجر برادری، شہریوں، وکلاء اور تمام مکاتب فکر کے لوگوں کے مطالبے پر توجہ دیتے ہوئے موجودہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی حکومت کو سابق میئر ہاؤس کی جگہ پر زیرالتوا پارکنگ پلازے کے منصوبے کو فوری طور پر شروع اور مکمل کرنے کے لئے نہ صرف قائل کرے بلکہ اس کے لئے فوری طور پر فنڈز بھی حاصل کرے۔ اس کے علاوہ شہر کے دیگر کئی مقامات پر بھی پارکنگ پلازے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے سابق ضلعی انتظامیہ نے ایک ہوم ورک بھی کیا ہوا ہے اور کئی مجوزہ پارکنگ پلازوں کے لئے مختلف اراضی کو زیرنظر رکھا ہوا تھا۔ اس کے لئے ڈپٹی کمشنر اور ڈویژنل کمشنر کو ازسرنو سروے کرتے ہوئے شہر میں ٹریفک لوڈمینجمنٹ کے تحت مسائل کے حل کی غرض سے پارکنگ پلازوں کی فوری طور پر تعمیر شروع کرنی ہو گی۔ موجودہ ضلعی انتظامیہ اور حکومت پنجاب نے تاحال فیصل آباد کے لئے تعمیروترقی اور اس کے مسائل حل کرنے کی غرض سے کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ وہ پارکنگ پلازے کی تعمیر سے ابتدا کرے۔
سابق میئر ہاؤس کی اراضی پر پارکنگ پلازے کے التوا کا مسئلہ
Nov 12, 2018