تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت فیصل آباد
جنرل ایوب خاں کے عہد میں بنیادی جمہوری نظام کو کنٹرول جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ بنیادی جمہوری نظام کے تحت یونین کونسل اور یونین کمیٹی کے لئے جو کونسلرز منتخب ہوتے تھے جن کی تعداد یونین کونسل اور یونین کمیٹی کی آبادی کے پیش نظر یونین کونسل اور یونین کمیٹی کے لئے کونسلرز کی تعداد مقرر ہوتی تھی۔ ان تمام کونسلرز کو عوام اپنے ووٹ سے منتخب کرتے تھے اور منتخب ہونے والے کونسلرز پھر اپنے چیئرمین کا انتخاب کرتے تھے اور منتخب ہونے والا شخص ہی میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسل کا رکن قرار پاتا تھا اور پھر یہ تمام چیئرمین میونسپل کمیٹی میونسپل کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ بورڈ یعنی ضلعی اسمبلی کا چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب ہوتا تھا لیکن یہ عوامی نمائندہ کلی اختیارات کا حامل ہونے کی بجائے ڈپٹی کمشنر کے زیرکنٹرول ہی اپنا بلدیاتی نظام تشکیل دیتا تھا۔ گویا منتخب میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹی، تحصیل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ پر عملاً حکمرانی بیوروکریسی کی ہوتی تھی اور تمام تر بلدیاتی ترقیاتی کوئی منصوبہ بھی اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک ڈپٹی کمشنر اور میونسپل کارپوریشن یا میونسپل کمیٹی کا ایڈمنسٹریٹر اجازت نہ دے لیکن حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی کنٹرولڈ جمہوریت بھی زمین میں دفن ہو گئی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عہد حکومت میں بلدیاتی نظام جسے جمہوریت کی نرسری قرار دیا جاتا ہے انہوں نے بلدیاتی انتخابات ہی نہیں کرائے کیونکہ وہ عوام کو میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر عوام کو ان کے حقیقی نمائندے دینے کی بجائے کیمونسٹ اور اشتراکی نظریہ کے نامزدگی کے فلسفہ کے قائل تھے اور انہوں نے اپنی پیپلزپارٹی میں بھی انتخابات کرانے کی بجائے پارٹی کے عہدیداروں کو نامزد ہی کیا۔ یعنی اصل طاقت اور حکمرانی کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہوئے تحصیل، ضلع اور صوبہ میں اپنی پسند کے افراد کو نامزد کیا لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلزپارٹی کا ضمیر ہی شخصی ڈکٹیٹرشپ سے اٹھایا اور اپنی نامزدگی کی بدولت اپنی پارٹی میں بھی ڈکٹیٹرشپ کے چلن کو اپنایا۔ پیپلزپارٹی میں عہدیداروں کا انتخاب کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد حکومت اور ان کے پارٹی چیئرپرسن کے عہد میں ہوا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے عہد حکومت میں ہی شہری اور ضلعی چیئرمینوں کو بیوروکریٹ کے سروں پر مسلط کرتے ہوئے بیوروکریٹ پر پارٹی بیوروکریٹ کی حکمرانی کی رسم بد کی روایت ڈالی۔ جس نے جمہوریت کے درخت کی نشوونما متاثر ہوئی اور جمہوریت کے نام پر مفادپرستی اور موقع پرستی کے کلچر نے جنم لیا۔ یوں کرپشن اور بدعنوانی کی ایسی فصل تیار ہوئی جس کا خمیازہ ہم آج بھی بھگت رہے ہیں اور خدا معلوم کب تک بھگتتے رہیں گے۔ یہ ماضی کی کہانی ہے اور طلسم ہوشربا کی طرح کہانی کے ایک باب سے دوسرا باب جنم لیتا ہوا نظر آتا ہے اور عوام جو جمہوریت کے خود کو عشاق کہتے ہیں یہ عشاق ایسے ہیں کہ اس زمانہ تبدیلی میں ان کی محبوبہ ان سے کوسوں دور ہے۔ سابق عہد حکومت میں سپریم کورٹ کے حکم پر جو جماعتی سطح پر بلدیاتی انتخابات کرائے گئے یہ بلدیاتی انتخابات جمہوری ممالک میں جو بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں ان میں منتخب ہونے والے افراد کے پاس اس قدر اخراجات ہوتے ہیں کہ وہ اپنے علاقہ کے ترقیاتی منصوبے بھی خود تیار کرتے ہیں اور ان کے منصوبوں پر عمل کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر حکومت اور انتظامیہ ان میں کوئی رخنہ ڈالے تو اس کی حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ جس بلدیاتی نظام کے تحت میاں محمد شہبازشریف کے عہد میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ان میں تمام اختیارات کا محور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف تھے اور نام کے بلدیاتی ادارے تھے۔ اس پر بلدیاتی اداروں کے ارکان نے شور بلند کیا تو آئین اور قانون سے بالاتر ہو کر میاں محمد شہباز شریف نے بعض ارکان اسمبلی اور بعض شکست خوردہ اپنی پارٹی کے ارکان کو نوازتے ہوئے ترقیاتی اداروں میں ایسے عہدوں پر بٹھا دیا جس کے نہ وہ اہل تھے اور نہ ان میں فنی طور پر اہلیت تھی اور لطف کی بات بلکہ ستم ظریفی یہ ہے کہ پنجاب کے تمام شہروں میں اس قانون پر عمل نہیں کیا بلکہ چند شہروں کا انتخاب ہوا جن میں فیصل آباد بھی شامل تھا۔ لہٰذا فیصل آباد میں فیصل آباد ترقیاتی ادارہ کی چیئرمینی ایم پی اے شیخ اعجاز احمد کے سپرد کر دی گئی اور واسا کا وائس چیئرمین شکست خوردہ سیاست دان عرفان منان کو بنا دیا گیا اور عرفان منان کا میرٹ یہ قرار پایا کہ وہ ایم این اے میاں عبدالمنان کا صاحبزادہ تھا جبکہ آئین اور قانون میں ایسی کوئی نہ شق موجود ہے اور نہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے تحریک انصاف نے بھی وہی غیرآئینی اقدام آئین اور قانون کا درجہ رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے بعض منتخب اور بعض شکست خوردہ افراد کو ایف ڈی اے، واسا اور مارکیٹ کمیٹی کے اہم عہدوں پر فائز کر دیا ہے جبکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں ایسی تقرریوں کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں ہے جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جو نیا بلدیاتی نظام لانے کی باتیں کر رہے ہیں ان میں تو میئر کا انتخاب بھی براہ راست عوام کے ووٹوں سے کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ یوں فیصل آباد کا جو میئر منتخب ہو گا اس کا حلقہ انتخاب ارکان صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی سے کہیں بڑا ہو گا۔ یہ طرفہ تماشا نہیں تو اور کیا ہے کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ تو ایک ایم پی اے ہو سکتا ہے جو تین لاکھ یا اس سے کم حلقہ سے منتخب ہو کر وزیراعلیٰ بن سکتا ہے اور میئر کے لئے میونسپل کارپوریشن کی حدود میں جس قدر یونین کونسل آتی ہیں چاہے ان کی آبادی 50لاکھ یا اس سے کم ہو میئرشپ حاصل کرنے کے لئے اسے پچاس لاکھ سے ووٹ کی بھیک مانگنی پڑے گی۔ خیر یہ تو جملہ متعرفہ ہوا ہے اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ تحریک انصاف کے کارکن ایف ڈی اے اور دیگر اداروں پر جن تحریک انصاف سے وابستہ افراد کو جن میں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی و انتخابات میں شکست کھانے والے افراد شامل ہیں کو عہدوں سے نوازا گیا ہے اور جن کے پرائز بانڈ نکل چکے ہیں کیونکہ فیصل آباد میں تحریک انصاف کوئی منظم سیاسی پارٹی نہیں ہے اور دو سے زیادہ گروپوں میں تقسیم ہے لہٰذا تحریک انصاف نے ان کی نامزدگی اور ان کے نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکے ہیں۔ نامزدگی کے روز سے ہی ان کے خلاف تحریک چلائے ہوئے ہے اور اپنی پارٹی کی قیادت عمران خان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کی تقرریوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حق دار اور وفادار تحریک انصاف کے کارکنوں کو نامزد کیا جائے اور حیران کن بات ہے کہ ان تحریکی کارکنوں کی احتجاجی تحریک اور احتجاجی مظاہرے روزاول سے ہی جاری ہیں اور دن بدن احتجاج کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت وزیراعظم عمران خان یا صوبائی قیادت نے اس احتجاج کا تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی تحریکی قیادت نے اپنے نمائندہ کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت محسوس کی ہے اس میں کون سی مصلحت کارفرما ہے اس کا بہتر جواب تو تحریکی قیادت ہی دے سکتی ہے جبکہ تحریک انصاف ان دنوں انتہا درجہ کی مہنگائی اور معاشی بحرانوں کے ہاتھوں کمزور سے کمزور ہی نہیں ہو رہی بلکہ عوامی قوت سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بے خوف ہو کر اپنے فرائض ادا کریں لیکن بلدیاتی اداروں پر تحریک انصاف کے افراد کو مسلط کرنا حیران کن ہے کیونکہ آئین اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ لہٰذا تحریک انصاف کی تبدیلی کو اپنی اس پالیسی پر نظرثانی کرے اگر سابق حکومت غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات اقتدار کے نشہ میں اٹھاتے رہے ہیں ضروری نہیں کہ مکھی پر مکھی ماری جائے لہٰذا کارکنوں کے احتجاج پر کان دھرتے ہوئے قیادت کے موقف کو سننے اور ان کے جائز مطالبہ تسلیم کرے، اس میں تحریک کی بقا ہے اگر کارکن ہی ناراض ہو گئے تو تحریک کہاں کھڑی ہو گی اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصل آباد پاکستان کا تیسرا پنجاب کا دوسرا بڑا شہر ہے اور اتنے ہی بڑے اس کے مسائل ہیں۔ اس سلسلے میں آٹھ بازاروں کے شہرکے مختلف علاقوں کے سروے کے دوران شہریوں نے بتایا اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ان مسائل کا مشاہدہ کیا۔ فیصل آباد کی مختلف رہائشی کالونیوں اور آبادیوں میں جس قدر سیر و تفریح کیلئے پارک بنائے گئے ہیں یہ پارکوں کی بجائے فلتھ ڈپو ئوں کا منظر پیش کررہے ہیں اور گھاس کی جگہ ‘جگہ جگہ گندگی ‘غلاظت اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر انتظامیہ اور متعلقہ کنٹرولنگ اتھارٹی کو منہ چڑھا رہے ہیں اور انتظامیہ ڈپٹی کمشنر اور متعلقہ اتھارٹی کی توجہ مبندول کرانے کیلئے باوجود کوئی توجہ ہی نہیں کر تا جبکہ پوش اور غیر پوش علاقوں کی کوئی تمیز نہیں ایک ہی لاٹھی سے بھینسوں کو ہاکا جا رہا ہے ‘ فیصل آباد میں پیپلزکالونی نمبرایک پوش علاقوں میں سر فہرست ہے اور پیپلز کالونی کی ڈی گرائونڈ تو فیصل آباد میں صبح کی سیر اور واک کیلئے مدینہ ٹائون اور اس سے ملحقہ آبادیوں نعمت کالونی کے لوگوں کی اکثریت باغ جناح میں جانے کی بجائے ڈی گرائونڈ اور پیپلز کالونی نمبر2میں پہاڑی والی گرائونڈ کو ترجیح دیتے ہیں ‘ جبکہ پی ایچ اے کے پاس کروڑوں روپے کے فنڈز اور عملہ کی فوج ظفر موج کے باوجود ہارٹیکلچر اینڈ پارک کی تمام تر توجہ پوش علاقوں اور اعلیٰ افسران کی رہائش گاہوں کی کالونی اور اعلیٰ افسران کی رہائش گاہوں کی طرف جانے والی شاہراہوں کی طرف ہے جیسے غیر پوش علاقوں میں انسان نہیں بستے ‘جبکہ کاغذی کارروائی ڈالتے ہوئے پی ایچ اے کی طرف سے پریس ریلیز جاری کی جا تی ہے جس میں وعدے کئے جاتے ہیں کہ فیصل آباد کو ماضی کے مقابلہ میں پھولوں کا شہر بنا دیا گیا حالانکہ پاکستان میں ایک زمانہ میں صوبہ خیبر کے مرکزی شہر پشاور کو پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے اس بارے میں فیصلہ خاندان کے بانی ظہیر الدین بابر اور ابیدنی نے اپنی کتب میں پشاور کو پھولوں کا شہر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پشاور میں مختلف اقسام کے پھول اس قدر پائے جاتے ہیں اور گلاب کی اس قدر اقسام ہیں جو برصغیر پاک و ہند کے دیگر علاقون میں نہیں پا ئی جا تی ‘ کالا گلاب پشاور سے ہی سفر کرتے ہوئے بلوچستان میں داخل ہوا بلوچستان کی زمین کالا گلاب کو اس قدر راس آ ئی کہ پوری دنیا میں کالا گلاب کی کاشت ہونے لگی ‘کالا گلاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی نشو و نما کیلئے دیگر پھولوں اور گلاب کی کاشت کیلئے زیادہ محنت اور نگہداشت کی ضرورت ہو تی ہے ‘ فیصل آباد میں زراعت کے حوالہ سے یونیورسٹی اور دیگر تحقیقی ادارے ہونے کے باوجود زرعی سائنس دانوں نے اس طرف کوئی توجہ مبندول نہیں کی جبکہ گلاب ایک ایسا پھول ہے کہ اس کا عطر پوری دنیا میں فروخت ہو تا ہے ‘ یورپ اور مشرق و سطی کے ممالک میں عطر گلاب کی بہت مانگ ہے اور گلاب کا عرق مختلف امراض میں استعمال ہو تا ہے اور دل کشا کے ساتھ آنکھوں کی امراض کیلئے بھی مفید ہے ‘ فیصل اباد میں اگر اس طرف توجہ دی تو زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے ‘ حیران کن بات ہے کہ ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے محمد آصف چوہدری نے اپنے ڈائریکٹر ہارٹیکلچر عبداﷲ نثار چیمہ کے بارے مختلف ٹائونز کا دورہ کیا اور تزئین و آرائش کے کاموں کو جلد سے جلد مکمل کرنے کی ہدایات جاری کیں اور فیصل آباد کے چاروں ٹائونز کا وزٹ کیا لیکن پیپلز کالونی نمبرایک کی پائلٹ گرائونڈ کے پارک پر کیوں نگاہ نہیں پڑی ‘حالانکہ پیپلز کالونی جو فیصل آباد کے پوش علاقوں میں دوسرے نمبر پر ہے اور اس پارک جو پائلٹ گرائونڈ کہلاتا ہے اسے پیپلز کالونی کا قلب قرار دیا جاتا ہے اس کے مکینوں کا کہنا ہے کہ پائلٹ گرائونڈ میں ٹوٹی سلائیڈز اور جھولے گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور پانی والی ٹینکی سے ملحقہ اس پائلٹ گرائونڈ پارک کی حالت اس قدر خستہ ہو چکی ہے اور ایسے محسوس ہو تا ہے کہ اس پارک کا کوئی والی وارث نہیں ہے اور بچوں کی سلائیڈز تو عدم وجود کا شکار ہو چکی ہے اور جھولوں کے نشانات آثار قدیمہ کا نقسہ پیش کر رہے ہیں اور پارک کا باتھ روم کم اور تعفن کا سر چشمہ زیادہ ہے ‘ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پارک میں آدمی فریش ہونے اور تازہ ہوا کھانے جاتا ہے لیکن اس پارک کی حالت اس لئے بانس بریلی جیسی ہے اور بندہ مختلف بیماریوں کے جراثیم اور وائرس اپنے دامن میں سمیٹے واپس آ تا ہے جبکہ ڈائریکٹر جنرل پی ایچ اے محمد آصف چوہدری کا کہنا ہے کہ سمندری روڈ کوریاں والا پل سے جبکہ نیاموآنہ نرسری تک سائیڈ گرین بیلٹ کا تزئین و آرائش کی جائے گی ‘اس کے علاوہ لائل پور ٹائون میں لائل پور پارک کو پارک کی جدید شکل دینے کے منصوبہ کو جلد مکمل کر لیا جائے گا یہ تمام دعوے اپنی جگہ لیکن شہریوں کی غالب تعداد فیصل آباد کے مختلف پارکوں کی حالت زار کا جو نقشہ پیش کر تے ہیں وہ ڈائریکٹر جنرل ہارٹیکلچر اور پارک کے دعوئوں کی نفی کرتے ہیں ‘ فیصل آباد میں ایک زمانہ میں جب چوہدری شیر علی میونسپل کارپوریشن کے میئر ہوتے تھے ‘ انہوں نے فیصل آباد کو فواروں کا شہر بنانے کیلئے ڈی گرائونڈ اور پیپلز کالونی نمبر2کے کشمیر پارک میں فوارے نصب کرائے اور مقامات پر بھی فوارے نصب کرائے جو شام کو چلا کرتے تھے اور ماحول میں ایک دلچسپی اور فرصت کا سماں پیدا کرتے فوارے اب موجود ہیں لیکن زنگ آلودہ ہو چکے ہیں ‘ ڈائریکٹر جنرل ہارٹیکلچر اینڈ پارک کو ان فواروں کی طرف توجہ مبندول کرتے ہوئے دوبارہ چالو کرنے کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے اس سے تزئین و آرائش میں بھی اضافہ ہو گا اور فیصل آباد کا نقشہ بھی بدلے گا اس وقت جی ٹی ایس چوک کا فوارہ جب چلتا ہے تو ایک دل ماحول نظر آ تا ہے ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ فیصل آباد میں جس پارک میں ان کی تزئین و آرائش بھی کی جائے اور ان پھیلی گندگی کا صفایا بھی کیا جائے ۔