’’بد زبانی‘‘ کا کلچر 

Nov 12, 2020

ملک عاصم ڈوگر …منقلب

دنیا میں ہر چیز کا جواب موجود ہے۔ اینٹ کا جواب پتھر ، گالی کا جواب تھپڑ ہوتا ہے لیکن کردار کا جواب کردار سے ہی دینا پڑتا ہے۔ ایسے ہی دلیل کا جواب بھی دلیل سے دینا پڑتا ہے۔ جب دلیل ختم ہو جائے تو گالی دی جاتی ہے۔ صاحب کردار لوگ گالی پر جواباً مسکرا کر گالی دینے والے کی اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں۔ اگر دونوں جانب سے گالیوں کا تبادلہ ہو رہا ہو تو پھر معصومیت کا وزن اپنی پسند کی جانب ڈالا جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت ہماری سیاست کا ہے جہاں اب دلیل ختم ہو چکی، طعنوں ، گالیوں اور کردارکْشی کا بازار گرم ہے۔ وطن عزیز کی73 برس کی تاریخ میں جب بھی جس کو موقع ملا اس نے سیاسی مخالف کو نیچا دکھانے کیلئے نیچ حرکت کی۔ حالانکہ نیچا تو وہ ہوتاہے جو نیچ عمل کرتا ہے۔ اس سارے عمل میں سب زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بدزبانی کا حملہ جس جانب سے بھی ہو نشانہ عورت بنتی ہے۔ یہ حملہ صرف مرد نہیں کرتے بلکہ بلکہ خواتین بھی اس ہرزہ سرائی میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کا تقاریر میں عمومی انداز تکلم ایک طعنہ زن خاتون کے طور پر مسلم ہو چکا ہے۔ جو موقع ملنے پر ذاتی مخالفین کی ذاتی زندگی کے بارے میں سنگین رائے دینے سے نہیں چوکتیں۔ ایک رپورٹر کا یہ سوال کہ عمران خان صادق اور امین ہیں جبکہ نواز شریف باسٹھ تریسٹھ پر پورا نہیں اترتے تو مریم نواز صاحبہ نے ایک ابرو اٹھا کر عمران خان کو ان کی مبینہ بیٹی کا طعنہ دیا۔ ایک عورت کے ہاتھوں ایک عورت کی توہین ہوئی۔ اب اس بیان کی حدت گلگت بلتستان کے برف سے ڈھکے پہاڑوں پر محسوس کی جارہی ہے۔ جواباً تحریک انصاف کے وزراء علی امین گنڈا پور اور مراد سعید جو لب و لہجہ ، انداز اور گفتگو کر رہے ہیں وہ بھی تمام سیاسی مخالفت سے قطع نظر ایک عورت کی ہی تذلیل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تحریک انصاف میں موجود خواتین بھی اس توہین آمیز گفتگوکی حمایت میں بیانات داغ رہی ہیں۔ عجیب معاشرہ ہے۔ مرد اپنی ماں،بہن ، بیوی اور بیٹی کی عزت کی خاطر جان دینے اور لینے پر تل جاتے ہیں لیکن دوسری جانب وہی مرد دوسرے کی بہن،بیٹی پر کیچڑ اچھالنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ زیادہ دور نا جائیں فاطمہ جناح پر الزامات اور انکی تضحیک کرنیوالے اب مسلم لیگی ہیں اور ایک خاتون کی قیادت میں سیاست کر رہے ہیں۔ کل تک نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی بے ہودہ تصاویر جہازوں سے پھینکنے والے آج مکافات عمل سے گزر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے باہر جب ن لیگی میاں جاوید لطیف نے تحریک انصاف کے رہنما مراد سعید کی بہنوں سے متعلق بدزبانی کی تو مارنے مرنے پر تیار مراد سعید کی اب کی تقاریر دیکھ لیں۔ موصوف پارلیمنٹ کے اندر بلاول بھٹو اور ایان علی کے متعلق ذومعنی گفتگو کرتے پائے جاتے ہیں۔ غیرت اور حمیت صرف انفرادی معاملہ نہیں۔ دریا اور کیچڑ میں فرق ہوتا ہے۔ دریاؤں کے دل بڑے ہوتے ہیں جب ان پر پتھر اچھالا جائے تو وہ اسے اپنے بڑے پن میں ڈبو دیتے ہیں۔ کیچڑ میں پتھر پھینکا جائے تو اپنا دامن دغدار ضرور ہوتا ہے۔ معاشرے کی سمت اہل سیاست طے کرتے ہیں۔ طاقت، سرمائے اور تکبر کی سیاست نے ہمارے معاشرے کو کیچڑ بنا دیا ہے۔ ہر وہ شخص جو کسی طرح بھی طاقتور ہے خود کو " ان ٹچ ایبل" سمجھتا ہے۔ خود کو ہر طرح کی جواب دہی سے ماورا سمجھنے والے کو ذلت کا شکار ہوتے دیکھا۔ نواز شریف کو جوتا مار کر ذلیل کرنے والے شاید قدرت کو بھول چکے ہیں۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ ہم بحیثیت معاشرہ جس غفلت اور تکبر میں مبتلا ہیں اس نے ہمیں قدرت کی جانب سے پسماندگی ، بھوک ، جہالت اور بے حسی کے مکافات سے دوچار کر رکھا ہے۔ لیکن ہمارے تکبر نے ہمیں اس بات کو سمجھنے سے عاری کردیا ہے۔ ایک زعم میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا کی عظیم قوم ہیں۔ اللہ اور اسکے رسول خاتم المرسلین ﷺ کے بتائے راستے ، ترتیب دئیے نظام اور معاشرتی اقدار میں ہی عافیت ہے۔ سخت سے سخت دشمن دین سے متعلق بد زبانی تو درکنار بد دعا بھی نہ دی۔ آج ہم پر بھی سودی سیاسی نظام مسلط ہے۔ افسوس جسے ختم کرنا اس وقت کسی بھی سیاسی یا دینی سیاسی جماعت کا ایجنڈا ہی نہیں۔ پاکستان کے نوے فی صدسے زائد عوام مستقبل سے جڑے خطرات کے خوف میں مبتلا ہیں۔ پوری ایک نسل کامستقبل داؤ پر لگا ہے۔ لیکن ہمارے اہل سیاست "بدزبانی "سے اپنے مفادات کے تحفظ میں مگن ہیں۔ اگر اس پر اعتراض کیا جائے تو بونگی دلیلوں سے گالیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ باشعور سیاسی طبقات سمجھتے ہیں کہ یہ دلیلیں گالیوں کا دفاع نہیں بلکہ مخصوص طبقے کے مفادات کا دفاع ہے۔

مزیدخبریں