مدیر،ادیب اورجریدے

Nov 12, 2020

رابعہ رحمن

ہمارے جریدوں میں عمدہ فکری اور ادبی تحریریں شائع ہوتی ہیں تمام اصناف کے ساتھ انصاف کیاجاتا ہے اور انکے مختلف باب بنائے جاتے ہیں۔ اداریہ میں مدیر اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ماضی ، حال اور مستقبل کے ادب پہ روشنی ڈالتے ہوئے جدیدیت کی بات کرتاہے مگر قدیم ادب کی کڑیوں اور پرچھائیوں سے وہ اپنی گہری محبت کا اظہار کرنے سے خود کو روک نہیں سکتا، مدیر اپنی توانائیاں کبھی غیرضروری کاوشوںمیں ضائع نہیں کرتا، مدیر نورا کشتی کے کھیل سے اپنے جریدے کو محفوظ رکھتا ہے، ہمیشہ دیکھا جاتا ہے کہ مدیر کا رویہ کبھی تعصبانہ نہیں ہوتا ورنہ ادب کے وجود پہ خون کے چھینٹے صاف صفائی دکھائی دینے لگیں جیسے ہی کسی جریدے کے چھپنے کا وقت قریب آتاہے تو ادیبوں کی محبتوں کے چراغ جل اٹھتے ہیں اور صبا پرور بادِ شمیم ایسے مدیر کے پاس پہنچتی ہے جیسے یوسف کی بوئے پیرہن مصرکے ناحیے سے سوئے کنعاں پہنچتی ہے۔ اردو ادب کے فروغ اور اسکے حرف ومعنی کو غیرمعمولی اکرام اور ادبی رفعت سے نوازنے کیلئے ہمارے مختلف جریدے اہم کام سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ہماری ہمایوں بختی ہے کہ ملک کے طول وعرض سے ٹیلی فون، ای میل اور دیگر ذرائع سے ان جرائد کو اور ان کے پیغامات کو محمود ومستحسن قرار دیا جاتاہے۔
میں تو چاہتی ہوں کہ یہاں ان جرائد کا احوال بھی بیان کروں کہ مسافت کی مشقت اور طوالت نے کس کس کو کہاں کہاں تھکا دیا، کون اس تھکن سے چُور مُشتِ خاک ہوا، کس نے اپنی ادب کی جھونپڑی بناڈالی اورکس نے مکان اور محل تعمیر کرلیے۔ دراصل قاری کی آنکھیں عدالت ہوتی ہیں، انکے مراسلے، علم ومعرفت کے مضامین اور حوصلہ افزاء تحریریں جرائد کی جاودانی کا سبب بنتی ہیں۔ کم زور لکھاری اور کمزور قاری کی جہاں لمبی رفاقت ہو وہاں پہ ادب کے حاشیے میں ادب کے پیکر کو پابند سلاسل کردیا جاتاہے اور ایسے جرائد سسک سسک کر دم توڑ دیتے ہیں۔ اگر ادب کو سہل انگاری سے نکال کر فکر کو زنجیروں میں جکڑ کر دشت وصحرا میں گھسیٹا جاتاہے تو لفظ ومعنی کے رگ وریشے سے ریشم کے پیکر تراشے جاتے ہیں۔ مدیر ممتاز احمد شیخ کا رسالہ (لوح) اپنی تحریروں کو حشر سامانیوں کے ساتھ ہمیشہ میری میز کی زینت بنتاہے۔یہ لوح کلاسیکی موسیقی کے آلات لیے چمکتی ہوئی دانش، فلسفہ کی حیرتیں اور حرف ومعنی کو ہمیشہ سے اس رسالے کی تحریروں نے تاج پہنایا کبھی ادب کو تاراج نہیں کیا۔
مرحوم علامہ ضیاء حسین ضیاء کا زرنگار جس میں نابغہ روزگار ہستیوں کے افسانے، نظمیں، غزلیں کہکشاں کی صورت شہپرِ ادب پہ چمک رہی ہیں۔ اداریے میں لکھتے ہیں کہ ہمارے لسانی تمدن کا یہ عالم ہے کہ فروغِ حرف ومعنی کی یک جنبش کاوش پر ایک طنزیہ معروضہ پیش کرنا واجب سمجھا جاتاہے خدارا اپنے زبان وبیان کو سوقیانہ قماش سے بچائیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے دعا کرنے کا سلیقہ بھی چھین لیا جائے۔ ہم ادب کے علمبردار تو کیا بنیں کہیں ہم فریاد کرنے کے آداب سے بھی جاتے رہیں، مبادا اپنے منبرذات پر خود سے خطاب نہ کرسکنے پر کرائے کے خطیب بلانے پڑیں، تو جناب ایسے ہی ہر اس آنکھ کو خواب دیکھنے اور اسکی تعبیر کرنے کا حق حاصل ہے جس میں قلم کی نوک سے خواب کی دنیا کا برگزیدہ تالا کھولنے کی حکمت وجسارت ہو۔ ایسے ہی ایک مدیر اقبال نظر ہیں جن کا کولاژ اپنے صفحات میں سطر بہ سطر ایک ظاہر اور مخفی حسن رکھتاہے، اسکی ادبی تماثیل ادیبوں اور شاعروں کے اپنے کرداروں سے سجی ہوئی ہے ادب کا باغ مئے کش ومیخانہ زرِحیف اور رزقِ نشاط یہ سب قارئین کیلئے ہے انہی کی شخصیت اور ستائش سے تو رسالے کی قبولیت کا پتہ چلتاہے۔ ماہنامہ ادب لطیف مدیران مرحومین (ناصرزیدی اور صدیقہ بیگم) جن کیلئے امیر مینائی کے یہ اشعار یاد آگئے کہ…؎
 ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
نہ گل ہیں نہ غنچے نہ بوٹے نہ پتے
ہوئے باغ نذر خزاں کیسے کیسے
 اداریہ میں لکھتے ہیں کہ ناصر زیدی(مرحوم) عہد موجود میں ادبی رسالہ نکالنا سفید ہاتھی پالنا ہے، آندھی میں چراغ جلانا ہے، صحرا میں اذان دینا ہے مگر میں کیا کروں مجھے اپنی ادبی زندگی کے روز اول سے یہ سب کچھ کرگزرنے کی خواہش تھی اور ایسے میں یہ کام ادھر ادھر کی حوصلہ شکن آوازیں سنے بغیر ایک سیدھ میں کیسے چلے جارہا ہوں اور انشاء اللہ تادم مرگ کرتا ہی رہوں گا،یہ دور بلاشبہ وہ دور نہیں جو میرے عہد جوانی میں تھا اب مصلحت اور مصالحت پر بھی مجبور ہونا پڑتاہے۔اسی طرح نسیم درانی(مدیر) کا سیپ اپنے اندر نگینہ چھپائے جب ادبی لہروں کے چھل مارتے ہوئے دریا سے نکل کے جزیرہ عشق ومستی، تصوف ومعرفت اور فکر ذات پہ چمکنے لگتاہے تو معارف ومعالم اور طالب علم کی شمعیں فروزاں ہوجاتی ہیں ۔ تخلیق جس کے بانی ومدیر اظہرجاوید (مرحوم) تھے انکے رسالے نے کم عرصے میں عزت وشہرت کی کافی مسافت طے کرلی، اس کے 2018ء کے پرچے میں سونان اظہرجاوید لکھتے ہیں وقت تیزی کے ساتھ گزرتا جارہاہے ابھی کل ہی کی بات تھی کہ اظہرجاوید (مرحوم) اپنے احباب کی محفلوں اور ادبی مباحث میں شامل تھے آج ہم ان کی ساتویں برسی منارہے ہیں، موت تو برحق ہے اشکوں کی فصیلیں اس کا راستہ روک سکتی ہیں نہ آہ وفریاد کوئی بند باندھ سکتی ہے۔ 2018ء کے اختتام کے قریب تخلیق کے قارئین کی فائل دیکھی تاکہ ان کے نام اور گھر کا پتہ نئی فائل میں رقم کروں مگر اس فائل کو کھولتے ہی ہرصفحے پہ کچھ نام کٹے ہوئے نظرآئے دل صدمہ نما ہوگیا۔اسی طرح سے الحمرا دیگر کئی رسالوں کے ہمراہ ادباء کی عینک کے عدسوں اور شائق نگاہوں میں ابھرنے لگتاہے،مدیر شاہد علی خان کی محبتوں کا ثمریہ ہے کہ جب تک قلمکاریاں موصول نہ ہوجائیں انکے فون آتے رہتے ہیں ایسی محبت کرنے والی ہستیاں ادیبوں کے فن کو اپنی لگن اور انتظار کی چوٹ سے جلابخشتی ہیں۔
 قارئین ہمارے جریدے تو شمار نہیں آسکتے مگر مکالمہ، نمود روشنائی، بیاض وجدان، نوادر، ادبیات، ادب معلیٰ خیال وفن اور انکے علاوہ اخبارات کے میگزین پہ تمام جرائد ورسائل اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ کتاب آج بھی زندہ ہے لائبریری میں آج بھی لالٹین جلتی ہے طالب علم آج بھی مشتاق ہے۔

مزیدخبریں