ہمارے ذرائع ابلاغ

Nov 12, 2020

امیر محمد خان

ہمارے دوست شہزاد اعظم ایک بہترین کالم نویس ہیں ، پاکستان کے اخبارات میں ملازمت کے بعد وہ سعودی عرب آگئے یہاں کے ایک اردو اخبار میٰں میگزین کے ایڈیٹر ہوگئے ، انکا کالم جس روز شائع ہوتا تھا اس دن اخبار کی سرکولیشن زیادہ ہوتی تھی ، سعودی عرب میں اخبا ر کی اشاعت ختم ہوئی ادارے نے سب کو انکے ممالک کو روانہ کردیا ، کم از کم پاکستانی اخبار نویس جہاں میڈیا پر بے روزگاری کی افتادہ آ ُپڑی ہے اسکے شکار ہوگئے۔ایک بہترین کالم نویس تمام تجربہ سر پر اٹھائے کبھی کراچی اور کبھی لاہور ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں پاکستانی صحافیوںکی سوشل سنگت پاکستان جرنلسٹس فورم کے مخلص ممبر تھے ا ور وہ یہاںسے جانے کے بعد بھی آج تک ممبر کی حیثیت میں اراکین کے دل میں ہیں ۔ بہترین کالم نگاری کے ساتھ بہترین گلوکار بھی ہیں اور فورم کی تقریبات کی رات گئے محفلوںمیں نغمہ سرا بھی ہوتے تھے۔ گزشتہ دنوں ان سے بات ہوئی اور میں نے درخواست کی کہ میرے وطن میں آج میڈیا کا کیا حال ہے تو انہوںنے ذیل میں دی گئی تحریر روانہ کی ۔ شہزاد اعظم کی تحریر مزاح کے ساتھ طنز کے تیر لئے ہوتی ہے ، میری چالیس سالہ صحافتی زندگی میں ملک کے چوتھے ستون کی حالت زار پر صرف اور صرف آنسو آئے ، میری سوچ ہے کہ اس چوتھے مضبوط ستون کی آبیاری نہ ہوئی تو باقی تین ستون کمزور ہی ہونگے اور ایسا ہی ہو رہا ہے کالم شہزاد اعظم کی تحریر سے ماخوذ ہے ۔
کراچی پریس کلب کی ایک سہانی شام کو ہم دیگر نصف درجن چٹورے احباب کے ساتھ موجود تھے۔ ہم سب کے سب ’’مشغلے‘‘ کے اعتبار سے صحافی تھے۔ مشغلہ اس لئے لکھا ہے کہ اب روزگار تو نہیں صحافت دماغ پر طاری ہے تو اب یہ مشغلہ بن گیا ہے چنانچہ وطن عزیز میں صحافتی آزادی کے حوالے سے بحث، تکرار، تو تکار، حقیقت سے فراراور مفروضوں پر ہاہاکار میں مگن تھے۔ اسکے باوجود یہ فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ ملک میں صحافت آزاد ہے یا نہیں؟ اسی دوران ایک معقول شخص نے کہا کہ ہمارے وطن میںکیچڑ، پگڑی اورٹوپی اچھالنے کی، مال بنانے کی،آئینہ دکھانے کی،خزانہ لوٹنے کی، جیل سے چھوٹنے کی،بے گناہ کو کوٹنے کی، اونچا بولنے کی، ٹٹرا رولنے کی، کم تولنے کی،ڈاکے چوری کی، سینہ زوری کی،رشوت خوری کی،جعل سازی کی، معقولات میں دخل اندازی کی وطن سے لوٹ پیٹ کر ’’فرار‘‘ہونا آسان ہے نگوڑے کیلئے جو بعد میںبھگوڑا کہلاتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے غریب اور سادہ لوح آدمی کا تو اس کیلئے نوکری ہے نہ کاروبار ہے،معاشرے میں قدم قدم پر دھتکار ہے،بے ایمانی اور لوٹ کھسوٹ سے وہ بیزار ہے،اسے پیٹ بھر نے کیلئے روٹی نہیں ملتی، شدید گرمی کے دوران بار باربجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث جینا مشکل، ٹھنڈاپلانا اورپینا مشکل، چاک گریبان سینا مشکل۔ اگریہ غریب کراچی کا رہائشی ہے تواسکے گھر کے باہر کچرے کا ڈھیر ہے، ہر کام میں ہیرپھیر ہے، اس کیلئے تیر اور بلا بھی ویسا ہی ہے جیسا شیر ہے،شہر کے اکثر علاقوں کی مصروف سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے، گلیوں میں آوارہ کتوں کی بھر مار ہے،صوبے کے عوامی رہنما عمران خان سے چلا چلا کر سوال کرتے ہیں کہ بتائیے کہ آپ نے دو سال قبل غریبوں کیلئے 50لاکھ گھر بنانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ وفا کیوں نہیں ہوا، ہمیں اس کا جواب چاہئے۔ تمام صحافتی ذمہ داران ان رہنما وں کے اس بیان کو خوب اچھالتے ہیں مگر وہ سوال کرنے والوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ ان کی پارٹی گزشتہ50 برس سے عوام کو ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ دینے کاراگ الاپ رہی ہے۔
 عوام کو سب سے پہلا ’’جھانسہ‘‘ نانا ابا نے دیا تھا، انکے بعد انکی صاحبزادی نے یہی لارا دیا اور آج پارٹی کی تیسری نسل نواسا،نواسی کے روپ میں عوام کے ہاتھوں میں ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا جھنجھنا تھما کران کو بے توقیر کرنے میں مصروف ہے۔ اگر یہ رہنما انصاف پسند ہیں توانہیں’’غریبوں کیلئے مکانات‘‘ کی تعمیر کے بارے میں سوال کرنے کیلئے کم از کم عمران خان کی تیسری نسل کا انتظار کرنا چاہئے۔صرف دو برس بعد ہی عمران خان سے ایسا سوال کرنا ان کو زیب نہیں دیتا۔
دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ ان’’منہ بولے عوامی رہنما ئوں‘‘ کو بارش کے دوران بجلی کا کرنٹ لگنے سے مرنے والے شہریوں کی کوئی پروا نہیں، انہیں ’’بے ڈھکنی مین ہولز‘‘پر مبنی سیوریج کے ’’بدکار‘‘ نظام کی اصلاح کا خیال نہیں آتا۔ ہاں وہ کتے بلیوں اور دیگرجانوروں کوڈینگی اور ملیریا سے محفوظ رکھنے کیلئے 9کروڑ کروپے کا بندوبست ضرور کرتے ہیں،انکی ’’فلاح و بہود‘‘ کیلئے مزید 57کروڑ روپے بھی مختص کرتے ہیں اور اس طرح گویا وہ عوام کو یہ باور کرا تے ہیں کہ انکی نظروں میں انسانوں سے زیادہ ان ’’غیر انسانی زندگیوں‘‘ کی اہمیت ہے۔ان تمام حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارے رہنمائوں نے عوام کے کسی مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھ کر اسے حل کرنے کی جدوجہدیا احتجاج کرنے پر غور نہیں کیا البتہ اپنے ذاتی مسئلوں کو عوامی مسئلہ قرار دیکر لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی جدوجہد ضرور کی۔رہ گئے ذرائع ابلاغ، خصوصاً ٹی وی چینلزتو انہوںنے بھی عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی واضح کردار ادا نہیں کیا۔ انہیں صرف اپنی ریٹنگ کی فکر کھائے جاتی ہے۔ 
سچ پوچھیں تو یہ چینلزعوامی خواہشات کے عکاس ہرگز نہیں البتہ عوام ان چینلز کی خواہشات کی عکاسی ضرور کرتے ہیں۔ 
………………… (جاری) 

مزیدخبریں