گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے الیکشن 15 نومبر 2020 کو ہو رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ الیکشن پاکستا ن کی حکمران جماعت کی حکومت کے اندازاً سوا دو سال کے بعد ہو رہے ہیں۔ اس الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مقابلہ متوقع ہے۔ یہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے تیسرے انتخابات ہیں۔گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی تھی اور حکومت کے پانچ سال مکمل کیے۔ گلگت بلتستان کو انتہائی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسکی سرحد پاکستان کے عظیم دوست ملک چین سے متصل ہے اور خنجراب پاس کو دنیا کا بلند سرحدی علاقہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان عسکری اور کاروباری تعاون کے اضافہ سے اس علاقہ کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ قراقرم ہائی وے جوکہ پاکستان کو چین کے ساتھ ملاتی ہے۔ ایک عظیم شاہراہ ہے جو کہ چین کی حکومت کا پاکستان کیلئے دیدہ زیب تحفہ ہے۔ اس کی تعمیر میں ہزاروں چینی انجینئرز اور و رکرز نے حصہ لیا۔ تعمیر کے دوران سینکڑوں چینی انجینئرز اور ورکرز جان سے گئے۔ جن کی قبریں بھی شاہراہ قراقرم کے سنگم پر واقع ہیں۔ گلگت بلتستان پاکستان کا خوبصورت ترین علاقہ ہے۔ اس علاقے کی خوبصورتی دنیا بھر میں مشہور ہے۔ وادی ہنزہ میں ''پاسوکوئنز'' پہاڑی سلسلہ انتہائی دلکش ہے جو کہ سوئٹزر لینڈ کے قدرتی مناظر سے کسی بھی طور کم نہ ہے۔ گلگت بلتستان کے پھل اپنے ذائقہ کی اپنی مثال ہیں۔ چیری، خوبانی، سیب، آڑو خوب ذائقہ کے حامل ہیں۔ شاہر اہ قراقرم چین کو خنجراب پاس سے پاکستان کے وسطی علاقوں تک رسائی د یتی ہے۔ اس شاہراہ کو پاکستان چین اور پاکستان کے درمیان زمینی تجارت کا اہم حصہ گردانا جاتاہے۔
گلگت بلتستان کا علاقہ ماضی میں شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 1970 میںگلگت ایجنسی اور بلتستان کو ملایا گیا۔ اسلا م آباد سے اس علاقے پر براہ راست حکو مت ہوتی تھی۔ 2009 میں حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے متعلق آرڈر جاری کیا۔ جس کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔ پہلے الیکشن 2009 میں ہوئے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کی کل 33 نشستیں ہیں۔ 24 نشستوں پر براہ راست الیکشن ہوتا ہے جبکہ 6 عدد خواتین اور تین عدد ٹیکنو کریٹس کیلئے مختص ہیں۔ 2009 کے پہلے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 12 نشستیں حاصل کیں، آزاد اراکین، خواتین کی مخصوص نشستیں اور ٹیکنو کریٹس کی نشستوں کو ملاکر اراکین کی تعداد 20 ہو گئی۔اس طرح 33 کے ایوان میں پیپلز پارٹی کو 20 اراکین کی اکثریت حاصل ہو گئی اور سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیر اعلیٰ بنے جو پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر بھی تھے۔اس صوبائی یونٹ کی آبادی تقریباً 15 لاکھ اور رجسٹرڈ ووٹوں کی تعدا د اندازاً 6 لاکھ تھی۔
پہلی گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی میعاد اپریل 2015 میں ختم ہو گئی اور جون 2015 میں دوسری اسمبلی کیلئے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس وقت مرکزمیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی جبکہ پہلے انتخابات کے وقت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔جون 2015 کے انتخابات کے وقت آبادی اندازاً 17 سے 18 لاکھ جبکہ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 7 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ ان انتخابات میں ووٹرز نے انتہائی دلچسپی کامظاہرہ کیا اور ٹرن آؤٹ 60 فیصد سے زائد رہا۔جون 2015 کے منعقدہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 16 نشستوں پر انتخابات جیت لیے اور 4 خواتین اور 2 ٹیکنو کریٹس کی نشستیں حاصل کر کے انکے اراکین کی تعداد 22 ہو گئی جو کہ 33 اراکین کے ایوان میں واضح اکثریت تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمٰن گلگت بلتستان قانون سا ز اسمبلی کے دوسرے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے عہدہ کا حلف 26 جون 2015 کو اٹھایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی صرف ایک نشست حاصل کر سکی جو کہ 2019 میں 33 اراکین کے ایوان میں 20 اراکین کی اکثریت کی حامل تھی۔ 33فیصد ووٹرز نے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیاجوکہ ووٹرز کی تعداد 1,25,199 تھی جبکہ 19 فیصد ووٹرز نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا جو کہ ووٹرز کی تعداد70965 تھی۔ان انتخابات کی اہم بات تحریک انصاف کو تیسری بڑی جماعت کے طور پر ووٹ ملنا تھا۔ تحریک انصاف کو اندازاً 10 فیصد ووٹ ملے جو کہ ووٹروں کی تعداد 36510 تھی۔ اور ایک نشست پر کامیابی حاصل ہوئی۔ مجلس وحدت المسلمین 2 نشستیں جیت سکی۔
15 نومبر 2020 کو تیسری گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں جو 18 اگست 2020 کو ہونے تھے۔ مگر کرونا وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو گئے۔نگران وزیر اعلیٰ میر افضل نے انتخابات فوج کی نگرانی میں نہ کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اور ووٹرز پر زور دیا ہے کہ وہ رائے حق دہی میں دلچسپی لیتے ہوئے ووٹ کے حق کا لازمی استعمال کریں۔گلگت بلتستان کو انتظامی لحاظ سے تین ڈویژن میں تقسیم کیا جاتا ہے جو '' بلتستان''،'' دیامر'' اور ''گلگت'' ہیں۔ گلگت او ر بلتستان کے پانچ پانچ ضلعے اور دیامر کے چار ضلعے ہیں۔ گلگت بلتستان میں کل 14 ضلعے ہیں۔کل ووٹرز کی تعداد 7,45,361 ہے جبکہ آبادی اندازاً 18 لاکھ ہے۔ 330ا مید وار 24 نشستوں کیلئے میدان میں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف سے 24 نشستوں پر امید واروں کا اعلان کیا ہے۔ جس میں مجلس وحدت ا لمسلمین کے دو امید وار بھی شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ (ن) کے 22، مسلم لیگ (قائد اعظم) کے 13، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 12، جماعت اسلامی کے 3 امید وار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ڈویژن گلگت کی 9 نشستیں ہیں جن میں گلگت خاص کی 3، نگر کی 2، ہنزہ کی 1، گذر کی 3 نشستیں ہیں۔ ڈویژن بلتستان کی 9 نشستیں۔ جن میں سکردو کی 4، کرماغ کی ایک، شاگر کی ایک، چنچی کی 3 نشستیں ہیں۔ ڈویژن دیامر کی 6نشستیں جن میں دیامر خاص کی 4 اور اسٹور کی 2 نشستیں ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے مجلس وحدت المسلمین سے انتخابی اتحاد کیا ہے جس کو انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف نے 24 نشستوں کے امیدواروں میں مجلس وحدت المسلمین کے دو امید وار کا بھی اعلان کیا ہے۔ مجلس وحدت المسلمین نے انتخابات 2015 میں دو نشستیں جیتی تھیں۔ جبکہ گلگت اور بلتستان میں کافی تعداد میں ووٹ رکھنے والی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ تحریک انصاف میں شامل ہونیوالے خدا محمد نشاد (سابق سپیکر)، ڈاکٹر محمد اقبال،حیدر خان اور ابراہیم سنائی کو مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف الیکشن 2015 میں گلگت ڈویژن کے علاقہ گذر III سے راجہ جہانزیب کی سیٹ جیت سکی تھی جبکہ بلتستان ڈویژن میں سکردو میں دو حلقوں سے چند سو ووٹوں جبکہ چنچی میں ایک امیدوار ایک ووٹ سے ہارا تھا۔ دیامر ڈویژن میں دو حلقوں میں امیدوار چند سو ووٹوں سے ہارے تھے۔ دیامر ڈویژن میں جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی بھی مؤثر سمجھی جاتی ہے کیونکہ اس علاقہ میں کافی مذہبی اثر دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 13 حلقوں میں مضبوط پوزیشن بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے جس کی اہم وجہ مجلس وحد ت المسلمین سے اتحاد کا 4 حلقوں میں مؤثر اثر، 4بااثر سابقہ اراکین گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا تحریک شامل ہونا اور ان کو ٹکٹ دیے جانا جبکہ الیکشن 2015 میں 5 حلقوں میں تحرک انصاف کا کانٹے دار مقابلہ کرنا اور تحریک انصاف کے امید واروں کا مسلسل عوامی رابطہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف 10 سے 12، پیپلز پارٹی 4سے 6، مسلم لیگ (ن) 2سے 4، مجلس وحدت المسلمین ایک سے دو، جمعیت علما ء اسلام (ف) ایک سے دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔جیت جس کی بھی ہو ضرورت اس امر کی ہے کہ دستور پاکستان میں الیکشن کے فوراً بعد ترمیم کرکے باقاعدہ گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثیت دی جائے تاکہ گلگت بلتستان صوبہ اپنے لوگوں کیلئے مؤثر منصوبہ بندی کرے اور ترقی کی نئی راہ کھلیں۔