یہ بات تو سچ ہے کہ عوام جمہوری طرز سیاست کو پسند کرتے ہیں اور اس نظام کے ثمرات سے مستفید ہونے کی خواہش بھی رکھتے ہیں اسی لئے ہر دفعہ سیاستدانوں کے فریب کا شکار ہو جاتے ہیں دراصل یہ نظام ملک کے استحکام‘ آئین کی بالادستی اور عوام کی بھلائی کا خواب دکھاتا ہے۔ جمہوریت عام آدمی کو شریک اقتدار کرنے کی بھی دعویدار ہے۔ اس نظام میں پارلیمنٹ کو خصوصی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں منتخب قیادت آئین کی روشنی میں دلائل کی بنیاد پر گفتگو کر کے عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرتی ہے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے اور عوام کی خوشحالی کیلئے یہیں بیٹھ کر منصوبہ بند ی کی جاتی ہے۔ جمہوریت میں اختلافات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنا ہوتاہے یہاں تمام سیاسی معاملات مہذب طریقے سے آگے بڑھتے ہیں مگر آج اس پلیٹ فارم پر جنگ کا سا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے لگتا ہے عوام جمہوری تماشہ دیکھنے پر مجبور ہیں ۔ ٹی وی ٹاک شو میں سیاستدانوں کی بیان بازی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے کیونکہ جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق آگے نہیں بڑھایا جا رہا ہے اسلئے جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔
خیر سے آج پاکستان میں بھی جمہوریت کا راج ہے اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہاں آمریت کا بھی راج رہا۔ تب سیاستدان کہا کرتے کہ کمزور سے کمزور جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے کیونکہ منتخب افراد عوام کے اندر سے ہوتے ہیں اسلئے انہیں عوام کے دکھ درد کا احساس بھی ہوتا ہے اور ادراک بھی ۔ آج پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل قائم ہے پہلے پی پی پی اقتدار میں آئی یہ حکومت صرف اپنی آہنی مدت پوری کرنے پر ناز کرتی دکھائی دی پھر مسلم لیگ نواز کو اقتدار ملا۔ انہیں اٹھتے بیٹھتے ‘ سوتے جاگتے خلائی مخلوق نظر آتی رہی آج بھی مسلم لیگ نواز کی قیادت اپنے بیانہ کے حصار میں نظرآتی ہے پھر پی ٹی آئی اقتدار میں آئی اس جماعت کا مؤقف تھا کہ انہوں نے 22 سال کرپشن کیخلاف جدوجہد کی ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ چوروں سے لوٹا ہوا پیسہ واپس لایا جائیگا جس سے پاکستان کی معیشت میں استحکام آئیگا‘بے روزگاری کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی کی جائیگی اور عوا م کو خوشحالی نصیب ہو گی۔ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آئے تقریباً اڑھائی سال کا عرصہ گزر چکا ہے اس عرصے میں عوام سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں ہوا مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے جبکہ حکمران مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے کی بجائے پچھلے حکمرانوں کو کوس کر اور اپنے سابقہ بیانہ کو دہرا کر اپنا کام چلا رہے ہیں ۔ عوام ضروریات زندگی کو سستا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور وزیراعظم کہتا ہے کہ میں این آر او نہیں دوں گا کوئی ان سے پوچھے کہ عوام تو این آر او نہیں مانگ رہی۔ اس وقت ہمارا سیاسی چلن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جمہوریت کنٹینر سے ہوتی ہوئی جلسے اور جلوسوں کی شکل میں پروان چڑھ رہی ہے ۔ کچھ جماعتوں کو حکومت گرانے کی فکر ہے اور حکمران خود کو مضبوط کرنے اور کرسی کو بچانے کی فکر میں دکھائی دیتے ہیں ایسے میں عوام کی چیخیں کسی کو سنائی نہیں دے رہیں۔ پانچواںدرویش پھر بولا اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے کہ جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کی روح موجود نہیں کیا ان سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات ہوتے ہیں؟ کہیں سیاسی جماعتوں کے اندر آمریت تو نظر نہیں آرہی؟ اگر سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری نظام موجود ہوتا تو کیا پھر سیاسی جماعتیں موروثیت کی طرف بڑھ پائیں؟ پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں پی پی پی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو ‘ بے نظیر بھٹو‘ بلاول زرداری بھٹو ہی کے ہاتھوں میں کیوں؟ مسلم لیگ نواز میں نواز شریف کے بعد شہباز شریف ‘ مریم نواز اور حمزہ شہباز ہی پارٹی کی قیادت پر مسلط ہیں۔ جمعیت علماء اسلام میں حضرت مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اور آگے انکی اولاد میدان سیاست میں موجود ہیں البتہ ذوالفقار علی بھٹو کے داماد حصول اقتدار کی راہ تلا ش کر پائے اور انہوں نے اقتدار کے مزے بھی لوٹے‘ اب نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر میدان سیاست میں متحرک نظر آتے ہیں البتہ جماعت اسلامی کو ایسی جماعت پایا گیا جہاں حضرت مولانا مودودی میا ں محمد طفیل اور قاضی حسین احمد وغیرہ کی اولادیں پارٹی قیادت پر مسلط نہیں۔ جمہوری نظام میں اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچانے کیلئے بلدیاتی ادارو ں کو فعال بنایا جاتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادتیں اس طرف توجہ نہیں دیتی ۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر جمہوریت کی روح کہیں نظر نہیں آتی۔