حضرت اقبال ؒ دنیائے عالم کی قدآور ، بلند و بالا اور عظیم شخصیت کا نام ہے۔ اقبال ؒکی شاعری، نثر نگاری، سیاسی بصیرت، ریاست کا فلسفہ، نوجوانوں میں بیداری کا تصور، اسلام کے بہترین شارح ان کی ایسی منفرد خصوصیات ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی صفات و امتیازی وصف انہیں دیگر سے ممتازکرتا ہے۔ اقبال کی شاعری محض انسانی عمل نہیں بلکہ اس میں ان کے اندر موجود شاعر کی آواز محسوس ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر ایک شاعر اور فلسفی پیدا ہوئے ۔ ’مخزن‘ کے سابق مدیر شیخ عبدالقادر نے لکھا کہ ’غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ غالب کو اْردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا ، اس نے اْن کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلووہ افروز ہوکر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے‘ اور اْس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں‘ دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا‘۔اقبال نے غالب کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے غالب کو جرمن شاعر ’گوئٹے‘کا ہم منصب قرار دیا۔
اقبال ان شاعروں میں سے ہیں کہ جنہوں نے شاعری برائے شاعری نہیں کی بلکہ ان کی شاعری میں فلسفہ و حکمت کے مشکل و پیچیدہ اور خشک مسائل کو اشعار کا جامہ پہنا یا گیا ہے۔ اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے۔ اقبال کی شاعری محض شعر و سخن کا شاہکا ر ہی نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کو درست سمت لے جانے، اسے جھنجوڑ نے کا خوبصورت ذریعہ ہے۔ اقبال نے قدیم و مشکل اصطلاحات و تلمیحات کے لب و لہجہ کو صحیح رخ میں ڈھالا۔ اقبال کی بعض بعض نظمیں اقبال کے فلسفہ حیات کی آئینہ دار ہیں ان میں ’ساقی نامہ‘ اور’ مسجد قرطبہ‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے بقول ’اقبال شاعری میں موضوعات کے اعتبار سے تنوع، وسعت اور ہمہ گیری ہے لیکن وہ بنیادی طور پر عظمت انسانی اورانسانیت کے شاعر ہیں۔ ان کے تمام افکار و خیالات اسی انسان اور انسانیت کے مختلف انفرادی اور اجتماعی معاملات و مسائل کے گرد گھومتے ہیں‘۔ برصغیر پاک و ہند کا کوئی شاعر ، ادیب، فلسفی، دانشور،علم و حکمت رکھنے والا کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے اقبال کو خوبصورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش نہ کیا ہو۔ اقبال کے بے شمار اشعار ضرب المثال ہیں۔بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق کا کہنا تھا کہ’’علامہ اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شْعراء اور مفکرین میں کیا جاتا ہے ۔ اْن کی حیات ہی میں انہیں ’شاعر مشرق‘ کہا جانے لگا‘‘۔ای ایم فاسٹر کا کہنا ہے کہ’’یہ بھی ہمارے شہنشاہانہ طرزِ حکومت کا ایک کرشمہ ہے کہ اقبال جیسا شاعرِ جس کا نام گزشتہ دس برس سے اْس کے ہم وطن مسلمانانِ ہند میں بچے بچے کی زبان پرہے، اْس کے کلام کا ترجمہ اس قدر عرصے کے بعد جاکر ہماری زبان میں ہوسکے ۔ ہندْؤوں میں جو مرتبہ ٹیگور کو حاصل ہے‘ وہی مسلمانوں میں اقبال کو ہے اور زیادہ صحیح طور پر ہے‘ اس لیے کہ ٹیگور کو بنگال سے باہر اس وقت تک کسی نے نہ پوچھا جب تک وہ یورپ جاکر نوبل پرائز نہ حاصل کر لائے۔بر خلاف اس کے اقبال کی شہرت یورپ کی اِعانت سے بالکل مْسَتثنیٰ ہے‘‘۔مصر کے ڈاکٹر عبد لوہاب عزام نے اقبال کو رومی قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر جلال الدین رومی ؒ اس زمانے میں جی اْٹھیں تو وہ محمد اقبال ہی ہوں گے۔ ساتویں صدی کے جلا ل اور چودھویں صدی کے اقبال کو ایک ہی سمجھنا چاہیے‘‘من حیث المجموع پوری قوم کے!! ہم نے اقبال کو صرف بچارے ایک یوم تک محدود کردیا ہے ہم اسے پڑھتے ہی نہیں۔ ویسے تو’’یوم ِ اقبال‘‘کی روایت حضرت اقبال کی زندگی میں ہی شروع ہوگئی تھی ۔خیر وہ موضوع الگ ہے کبھی موقعہ ملا تو ذکر کروں گا ۔یوم اقبال تاریخ کے آئینے میں مگر اس دفعہ میرا موضوع آجکل کا بیچارہ یوم اقبال ہے ۔خیر چلیے‘ اسرار و رموز‘ پیام مشرق‘ جاوید نامہ‘ زبور عجم‘ پس چہ باید کرد اور نصف ارمغانِ حجاز تو فارسی میں ہیں‘ جو کتابیں ان کی اردو میں ہیں‘ وہ ہم میں سے کتنوں نے پڑھی ہیں اور کتنوں نے اپنے بچوں کو پڑھائیں یا اس طرف راغب کیا؟ ان کتابوں کے نام تک نئی نسل کو نہیں معلوم۔ اقبال میوزیم‘ جو جاوید منزل میں بنایا گیا ہے‘ کتنوں نے دیکھا؟ کتنے اپنے بچوں کو وہاں لے گئے؟ اب تو ہماری ذہنی سطح یہ ہو گئی ہے کہ کراچی یا لاہور جائیں تو صرف کھابوں اور ریستورانوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ معدے پھیل گئے ہیں اور دماغ سکڑ گئے ہیں۔ فکری اعتبار سے ہم سب شاہ دولہ کے چوہے بن چکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اقبال کے کلام کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور سمجھنے کی تحریک چلے۔ اقبال شناسی کے لیے مجلسیں‘ بیٹھکیں‘ گروپ اور زاویے تشکیل دیے جائیں جو مل بیٹھ کر کلام اقبال پڑھیں اور پڑھائیں۔ سمجھیں اور سمجھائیں۔ ابھی ہمارے درمیان ایسے اصحاب کافی تعداد میں موجود ہیں جو فارسی جانتے ہیں۔ انہیں تلاش کیا جائے۔ ان سے گروہوں کی شکل میں کلام اقبال سبقاً پڑھا جائے اور اتنی استعداد پیدا کی جائے کہ ہم سلسلہ وار دوسروں کو پڑھا سکیں۔ایک تو غلط فہمی یہ مارے جا رہی ہے کہ فارسی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اچھی خاصی فارسی آتی ہے مگر ہم جانتے نہیں کہ ہمیں فارسی آتی ہے۔ اردو کے کثیر الفاظ فارسی النسل ہیں۔ آمد و رفت‘ نقل و حمل‘ گفتگو‘ جستجو‘خور و نوش‘ پس و پیش‘ آب و تاب‘ خرابی بسیار‘ نمود و نمائش‘ درودیوار‘ دریچہ‘ غلغلہ‘ پسماندگی‘ واماندہ‘ حالیہ‘ کوشش‘ تپش‘ ہوشیار‘ جنگ بندی‘ نیم دلی‘ ہراساں‘ مشکل‘ مشغلہ‘ پیشرو‘ دستبردار‘ دانا‘ نادان‘ زیرک‘ اور ہزاروں دوسرے الفاظ جو ہم روزمرہ میں بولتے ہیں‘ فارسی کے ہیں۔ رہی فارسی گریمر‘ تو اردو‘ عربی اور انگریزی کی گریمر کی نسبت‘ فارسی گریمر آسان تر ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فارسی سے بے خبری کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے آٹھ سو سالہ ادب‘ کلچر اور تاریخ سے بے خبر ہیں۔ امیر خسرو سے لے کر فیضی‘ بیدل اور غالب تک‘ ہمارے شعری اور نثری ادب کا وافر حصہ فارسی میں ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم سچائی یہ ہے کہ پاک و ہند کی جتنی بھی تاریخ‘ اٹھارہویں صدی تک اور اس سے پہلے کی ہے اس کے تمام منابع فارسی میں ہیں۔کلام اقبال صرف ایک پہلو ہے۔ حیات اقبال‘ اقبالیات کا ایک اور اہم حصہ ہے۔ انسان حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ اس عظیم شاعر کی زندگی کس قدر مصروف تھی اور تنوع سے چھلکتی ہوئی! بھرپور سیاسی سرگرمیاں‘ یونیورسٹیوں کے لیے خدمات‘ درسی کتب کی تالیف‘ مدراس سے لے کر حیدر آباد تک اور علی گڑھ سے لاہور تک لیکچرز کا سلسلہ‘ خطوط کا جواب‘ جلسوں میں شرکت‘ دنیائے علم کے تازہ واقعات اور نئی کتابوں سے مسلسل رابطہ‘ مسلسل مطالعہ‘ پھر معاش کے لیے وکالت‘ کبوتر بازی کا شوق‘ آم پارٹیوں میں شرکت‘ غرض ایک ہنگامہ خیز زندگی گزاری اور اس کے ساتھ ہی علوم کے خزانے اپنی شاعری اور دیگر تصانیف میں سمو دیے۔