کسی گائوں میں ایک با با آخری دموں پر تھا ۔ بیٹوں ، پوتوں اور نواسوں نے منت سماجت کی کہ بابا ہمیں کوئی نصیحت کرتے جائو ۔ بابے نے اکھڑتے سانسوں میںجواب دیا کہـ" میڈے بچڑیو،منگن دی کدی بس نہ کریائے" (میرے بیٹو خیرات مانگنے میں کبھی کوئی کمی نہ کرنا ) لگتا ہے کہ پاکستان بننے کے فورََا بعدسے ہمارے ارباب اقتدار نے بھی بابے کی اس نصیحت کو دل جان سے قبول کر لیا ہے بالخصوص1970کے بعد۔ ہر سال نئے قرضوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل بنگلہ دیش کے ایک سابق صدر نے اپنی فیملی کی ضروریات سے بہت زیادہ قرار دے کر اپنی تنخواہ کو تقریباََ ایک چوتھا ئی تک محدود کر لیا تھا وہ ایوان صدر کے یوٹیلٹی بل بھی اپنی تنخواہ سے ادا کیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ہاں سابق و حاضر تمام اراکین پارلیمنٹ پہلے سے سب کچھ ہونے کے باوجود،بھاری بھر کم تنخواہیںاور ہر سال تنخواہ میں اضافے کو دل و جان سے قبول کر تے ہیں ۔؟حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد آج تک کوئی گراپڑا شخص ان عوامی عہدہ جات کے قریب بھی نہیں پھٹک سکا۔مارشل لاء کی حکومتوں میں بھی تمام حکمران انہی خاندانوں سے ہی چنے جاتے ہیں ۔ اگر وہ یہ لاکھوں میں تنخواہیںاور سہولیات نہ بھی لیں تو ان کے معیار زندگی میں ایک فیصد بھی فرق نہیں پڑے گا ۔لیکن اتنی بڑی قومی سوچ ، اعلی ظرف اورصاحب کردار قوم لائے گی کہا ں سے۔؟ حضرت قائداعظم ؒنے وصیت میں اپنا سب کچھ اس ملک کے لئے وقف کر دیا تھا لیکن آج کل کے ماضی اور حال کے تمام صاحب اقتداران ؟بحر حال قوم کے یہ اللے تللے پورے کرنے کے لئے غیر مسلم قوموں کے ساہو کا ر بنک ہی واحد سہارا نظر آتے ہیں جس ملک میں کوئی اعلی ترین ریٹائرڈ ، قوم کو پینشن بمعہ تمام سہولیات پچیس لاکھ روپے ماہانہ میں پڑ رہا ہو وہ قوم اگر مغربی ساہو کار اداروں سے ہر ماہ بھیک نہیں مانگے گی تو اور کیا کرے گی۔ ؟کیا کبھی کسی محب وطن نے اپنے ملک کی اعلی طبقہ کی پینشن جات بمعہ سہولیات کا چھبیس صوبوں والے پڑوسی دشمن ملک بھارت کے انہی طبقہ جات کی پیننشن اور سہولیات کا تقابلی جائزہ لیا ہے ۔۔؟ اگر محکمہ انکم ٹیکس ملک میں سروے کروائے تو کم از کم نوے فیصد ایسے کا روباری طبقہ جات مل سکتے ہیںجنہوںنے پچھلے 75 سال میں تین نسلوں کے گزر جانے کے باوجود آج تک ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دیا ، اس کی بنیادی وجہ خود تشخیصی ٹیکس نظام ہے مغربی ممالک سے درامد کردہ ٹیکس نظام کہ جس میں فرد نے اپنی مرضی سے فیصلہ کرنا ہے کہ میں نے کوئی ٹیکس دینا ہے یا نہیںاگر دینا ہے تو اپنی مرضی، نہیں دینا تو بھی اپنی مرضی ،ان حالات میں خود انحصاری ناممکن ہے ملک میں خانہ شماری کے انداز میںہر دکان، مکان کا کیوبک فٹ کے نظام سے فی کیوبک فٹ ٹیکس کا نفاذ کیا جائے مثال کے طور پراگرایک دکان 10 فٹ x 20 فٹ / اونچائی 8 فٹ ہے تویہ ٹوٹل رقبہ 1600مکعب فٹ بنتا ہے ا س پرکمرشل یا ریزیڈنشل استعمال کے علاوہ کچھ روپے فی مکعب فٹ یا زیادہ با لحاظ نوعیت کاروبار سے سالانہ ٹیکس فکس کردیا جائے ۔ تو میرے اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ ضروریات سے کم از کم بیس گنا زیادہ رقم حیران کن طور پر حاصل ہو سکتی ہے جس میں انٹر نیشنل ساہوکار اداروں کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگااور ملک کا کوئی ایک بھی فرد ٹیکس ادائیگی سے بچ نہ سکے گا۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر اس سسٹم کو ضلع اسلام آباد کی حدود میںنافذ کیا جائے۔ اور اس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے مد نظر ممکن اصلاح کر دی جائے۔ اور بعدازاں اس سسٹم کو مرحلہ وار پورے ملک میںنافذ کر دیا جائے۔ارباب اقتدار یاد رکھیں کہ اعلی یا ادنی کوئی بھی فرد اپنی مرضی سے حکومت کو ایک روپیہ بھی ٹیکس نہیں دینا چاہتا لیکن روزانہ صبح سے شام تک حکومت پر تنقید کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے ۔ڈاکٹر محبوب الحق نے واقعہ سنایا تھا کہ ایک اعلی شخصیت کو کسی معاملے میں پانچ سو روپے ٹیکس کی ادائیگی کے لئے نوٹس بھجوایا گیا تھا اور وہ کلاشنکوف لے کر ڈاکٹرصاحب کے ٹیبل پر پہنچ گیا تھا۔ مغربی ملکوںخصوصاََ تمام عالم کفر اور ان کے مشہور ساہوکار اداروں ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، اے ڈی بی، وغیرہ کو یہ تجویز سخت ناگوار گزرے گی کیونکہ یہ تجویز ملک کو حقیقی طو ر پر خود انحصاری کی طرف لے کر جائے گی آج کل حقیقی خود انحصاری ہوتی ہی وہی ہے کہ جس میں ملک دفاعی ،معاشی طور پر بھی خود کفیل ہو کوئی بھی ملک اپنے زیر یا ماتحت معاشی غلاموں کی خود انحصاری کی راہ پسند نہیں کرتا (سی پیک پر مغربی ملکوں اور پڑوسیوں کی نظریں سب کے سامنے ہیں) ۔ہمارے موجود ہ ارباب اقتدار ان نے برسراقتدار آکر دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے لئے چھ ماہ کا ابتدائی وقت مانگا تھا اس کے گزرنے کے بعد اگلے چھ ماہ بھی گز ر چکے ہیں اور اب پھر اگلے چھ ماہ کی اس حکومت کو دیکھ لینے کی مہلت مانگی جا رہی ہے اب تقریباََ موجود ہ حکومت کا ساڑھے تین سال کا عرصہ گز ر چکا ہے لیکن اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی پہلے جو مہنگائی تن چار ماہ کے بعد ردو بدل دکھاتی تھی اب وہی ردعمل ہر مہینے کی پہلی اور پندرہ تاریخ کو نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے میرے تجویز کردہ ٹیکس نظام کو لاگوں کر کے ملک کو اپنے پائوں پرکھڑا کرنے کی ابتدا کریں۔