اسلام آباد (اعظم گِل /خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس گلزار احمد نے ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عائلی اور دیوانی تنازعات کی طرح فوجداری تنازعات میں بھی متبادل تنازعات کے حل کا نظام متعارف کرایا جائے تاکہ ملک کی عدلیہ اہم مسائل پر توجہ دے سکے۔ جمعرات کو سپریم کورٹ بلڈنگ میںچیف جسٹس کی زیر صدارت''پولیس ریفارمز کمیٹی'' کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، جسٹس عمر عطا بندیال، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے پولیس سربراہان سمیت کمیٹی کے دیگر ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس میں پولیس ریفارمز کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد کی صورتحال اور ملک بھر میں پولیسنگ پر اس کے مجموعی اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ چیف جسٹس نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فوجداری انصاف کے نظام میں ملزمان کے بری ہونے کی بلند شرح، ناقص تفتیش، جدید ٹیکنالوجی کا عدم استعمال، پیشہ ورانہ مہارت کی کمی اور عوام کے ساتھ پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ مجموعی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرنے والے اہم عوامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے پولیس ریفارمز کمیٹی کی سفارشات کو موثر انداز میں نافذ کیا جائے اور کمیٹی کی سفارشات کو علمی بحث کے طور پر نہ لیا جائے۔ ملک کے ہر ضلع میں پولیسنگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی اور باقاعدہ تربیت کے ذریعے تمام پولیس افسران/ اہلکاروں اور پراسیکیوٹرز کی استعداد کار بڑھانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس نے پنجاب، خیبر پی کے، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان پولیس کی کارکردگی کو سراہا اور خواہش کا اظہار کیاکہ اسلام آباد اور سندھ پولیس کو بھی اپنے کام کو بہتر بنانا چاہیے۔ خاص طور پر سزا کی کم شرح کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جو کہ آئی سی ٹی اور صوبہ سندھ میں جرائم کی شرح میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کے پی کے پولیس کے تنازعات کے حل کی کونسلوں کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان تنازعات کے خوش اسلوبی سے حل کے لیے اسی طرح کی کونسلیں ملک بھر میں قائم کی جائیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجداری انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے پراسیکیوشن اور پولیس کے درمیان مناسب ہم آہنگی ہونی چاہیے تاکہ سزا کی شرح کو بلند کیا جا سکے۔ تحقیقات کو جدید بنانے کی ضرورت ہے۔ نچلی سطح پر محکمہ پولیس میں پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہے۔ ٹیکنالوجی اور فرانزک کا استعمال سزا کی شرح کو بہتر بنا سکتا ہے۔ بہتر تفتیش کے لیے اسلام آباد سمیت تمام شہروں میں سیف سٹی جیسے پراجیکٹس ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ عائلی اور دیوانی تنازعات کی طرح فوجداری تنازعات میں بھی متبادل تنازعات کے حل کا نظام متعارف کرایا جائے۔ منشیات، لینڈ مافیا، سمگلنگ اور اس جیسی سماجی برائیاں موجود ہیں۔ ملک کے کریمنل جسٹس سسٹم میں مثبت بہتری کے لیے پولیس ریفارمز کمیٹی کو تمام شعبوں پر غور کرنا چاہیے۔ قبل ازیں انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب نے بتایاکہ محکمانہ احتساب کے حوالے سے انہوں نے غفلت ولاپرواہی کے مرتکب پولیس افسران/ اہلکاروں پر بڑے اور معمولی جرمانے عائد کیے ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ نے وضاحت کی کہ جدید تکنیک کی عدم دستیابی اور پولیس کے معاملات میں سیاسی مداخلت کی وجہ سے سندھ پولیس مینڈیٹ کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا رہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے صوبہ سندھ میں محکمہ پولیس کی ناقص کارکردگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور خواہش کی کہ سندھ پولیس دیگر محکموں سے توقعات وابستہ کرنے کی بجائے خود اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس صوبہ خیبرپی کے نے بتایا کہ کے پی کے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو بغیر کسی بیرونی مداخلت اور دبائوکے مکمل خود مختاری حاصل ہے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس بلوچستان نے بتایا کہ صوبے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات اور مختلف مسلح گروہوں کی موجودگی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے بلوچستان سب سے مشکل صوبہ ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آئی جیز اور ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز اسلام آباد نے بھی اپنی کارکردگی سے آگاہ کیا۔