لاہور (فاخر ملک) مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین مفاہمت آگے بڑھنا شروع ہو گئی ہے اور پیپلز پارٹی نے اصولی طور پر سینٹ کے چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد لانے کا مسلم لیگ (ن) کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کر لیا ہے تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ 15- نومبر یعنی آئند ہ تین دنوں میں ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کو مرکز اور پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک لانے کے کئے ماضی میں کئی بار پیش کش کرتی رہی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کا جواب تھا کہ پہلے اپوزیشن اکثریت میںہونے والے میدان میں اترے اور سینٹ میں تحریک عدم اعتماد لائے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے از سرنو مشاورت شروع ہو گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں دو مختلف مواقع پر حکومت کو شکست اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو مئوخر کرانے میں پیپلز پارٹی کے حکومتی اتحادیوں کے ساتھ رابطوں نے اہم کر دار ادا کیا ہے۔ پارلیمانی سطح پر حکومت مخالف اتحاد کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سینٹ میں انہیں 60 فیصد ووٹ ملنے کے اشارے ملے ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ 9 سیاسی جماعتوں کے پاس 51 -ووٹ ہیں جبکہ تحریک انصاف کے اتحادیوں نے بھی انہیں حمایت کا یقین دلایا ہے ان کا کہنا ہے انہیں سینٹ میں دلاور خان گروپ کے 6 ارکان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کیخلاف بھی ان ہی کی جماعت کے ارکان کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کا تعلق بھی بلوچستان عوامی پارٹی سے ان ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے کی صورت میں حکومتی اتحادیوں کے مزید تین سے چار ووٹ ملنے کی توقع ہے اس ضمن میںبتایا گیا ہے۔ ایک (سینٹر محمد اسحاق ڈار) کی سیٹ چھوڑ کر سینٹ کی 99 نشستوں میں سے حکومتی حمایتی ارکان کی تعداد 48 ہے جس کے مطابق پی ٹی آئی کی 26، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کی 12، ایم کیو ایم کی 5، جی ڈی اے اور مسلم لیگ (ق) کی ایک ایک اور آزاد ارکان کی تعداد 5 ہے۔ اس طرح حکومتی اتحاد کی سینٹ میں مجموعی تعداد 48 ہے۔ اس کے مقابلہ میںاپوزیشن اتحاد جس میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 20، مسلم لیگ (ن)کے ارکان کی تعداد 18،جمیعت العلمائے اسلام (ف) کی 5 اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان کی تعداد 2 جبکہ پشتونخواہ ملی پارٹی، جماعت اسلامی اور آزادارکان کی ایک ایک سیٹ ہے۔ واضح رہے کہ قبل ازیں 2019 میں سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔