سسٹم کی بساط کو جھٹکے، خدا خیر کرے


گویڑ لگانے اور اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار کر دور کی کوڑیاں نکال لانے والے گیانی حضرات ان دنوں آنکھیں نچاتے کسی ’’دھماکے’’یاسکوپ کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے کو بے تاب نظر آتے ہیں مگر بھائی صاحب! 
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مجھے تو اس وطن عزیز کی ، آئین کے تحت قائم سسٹم کی اور اس سسٹم میں راندۂ درگاہ ہوئے عوام کی خیرخواہی مطلوب ہے اس لئے پارلیمانی جمہوری نظام کے حوالے سے میرا دل رجائیت سے بھرا رہتا ہے مگر اس نظام سے وابستہ ارباب بست و کشاد نے ہی نظام کی ناکامی پر اپنی ’’کارکردگی ‘‘کا ٹھپہ لگانے کا عہد کررکھا ہو تو محض میری رجائیت پسندی تو سسٹم کیلئے بیساکھیوں والا سہارا نہیں بن سکتی۔ سو ان دنوں آسمانوں پر کڑکتی بجلیاں اور فضائوں میں چلتے طوفانی جھکڑ بھی ہم خوش فہموں کو ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘‘ والی تھپکیاں دیتے نظر آتے ہیں، کہیں تان 19 نومبر پر جاکر ٹوٹتی ہے، کہیں اتحادیوں کے لچھن حکومتی گاڑی کے پہیے آنے والے چند لمحات میں ہی گاڑی کے نیچے سے کھسکاتے نظر آتے ہیں اور کہیں وزیراعظم کی عدالت عظمیٰ میں طلبی کو ہی ماضی کے حالات و واقعات کے تناظر میں وزیراعظم کی قربانی کے دن رہ گئے تھوڑے کا ماحول گرمانے کا سبب ظاہر کیا جاتا ہے۔ سو باتوں کا پتنگڑ بناتی زبانیں کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ سب سے زیادہ اچھل کود حکومتی اتحادیوں کے بدلتے تیوروں پر ہورہی ہے جس میں کہیں کہیں حکومتی پارٹی کے خالص اپنے ارکان کے حکومتی کارکردگی سے مایوس چہروں کی جھلک بھی نظر آجاتی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہائوس کے اندر یا باہر سے تبدیلی کا پورا سازگار ماحول بن چکا ہے جس میں کچھ اشارے وزیراعظم کی طرف سے اٹھائے جانے والے ممکنہ اقدامات کے بھی مل رہے ہیں۔ ان میں ایک اسمبلیاں توڑنے کے آپشن والا اشارہ ہے۔ مگر حضور! یہ آپشن تو اپنے ہی گلے پڑ سکتا ہے۔
آج ملک بھر میں عوام انتہا درجے کی مہنگائی اور بے حد و حساب بیروزگاری کے ہاتھوں زچ ہوکر جھولیاں اٹھائے آسمان کی جانب آنکھیں جمائے نظر آتے ہیں تو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کیلئے ان عوام کے پاس جانے کے نتیجے کا ذرا تصور ہی ذہن میں بسا لیجئے۔ میرا نہیں خیال کہ اس تصور میں اسمبلیاں توڑنے والی جرأت رندانہ کی کوئی گنجائش نکل پائے گی سو آگے اندھیرا اور پیچھے کھائی کے بیچ میں پھنسنے والا منظر بنا دکھائی دے رہا ہے۔ گویا پھس گئی جان شکنجے اندر، جیوں ویلن وچ گنا۔ ارے صاحب ! میکدے کے بدلتے یہ حالات ہمارے لئے سودمند تو نہیں۔ سسٹم میں کوئی پخ لگانے کا تجربہ کرنے والوں کیلئے بھی یہ آزمائش ہے کہ نگلنا یا اگلنا دونوں لاج والے معاملات ہیں۔ مگر شش و پنج کی فضا نے بہرحال چھٹنا تو ہے جس کے بعد کیا منظرنامہ دکھائی پڑتا ہے، خدا خیر کرے؎
بیچ ہے منجدھار آسی، اور ساحل دور ہے
کیسے ہوگا اپنا بیڑہ پار، الٰہی خیر ہو
مجھے اس سارے ماحول میں چھٹتی گرد کے اندر سے نکلتی ریاکاری پر سب سے زیادہ تاسف ہورہا ہے۔ ارے، وزیراعظم عمران خان صاحب اور ان کی سیاسی قیادت کے تابع ان کی پارٹی جمہوری نظام کا مردہ خراب کرنے والی ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ والی لعنت کی سب سے بڑی ناقد رہی ہے کیونکہ یہ سیاسی بلیک میلنگ کا وہ ناروا راستہ ہے جس پر چل کر کوئی حکومت پائیدار ہوسکتی ہے نہ سسٹم استقامت اختیار کرسکتا ہے۔ عمران خان صاحب اسی بنیاد پر 2018ء کے انتخابات کی مہم کے دوران عوام سے انہیں حکومت سازی کیلئے قطعی اکثریت والا مینڈیٹ دینے کے متقاضی ہوتے تھے اور اپنے ’’اصولی‘‘ موقف میں مزید وزن ڈالنے کیلئے یہ باور کرانا بھی ضروری سمجھتے تھے کہ اگر ان کی پارٹی کو سنگل مجارٹی والی اکثریت حاصل نہ ہوئی تو وہ اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنا قبول کرلیں گے مگر حصول اقتدار کی خاطر کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے۔ افسوس ان کا اپنا طے کردہ یہ زریں اصول تو انتخابی نتائج کے ساتھ ہی انہی کے ہاتھوں ٹوٹ گیا اور جنہیں وہ بڑے ڈاکو کے القابات سے نوازتے رہے اور جنہیں وہ اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھنے والی انا کا اظہار کرتے رہے۔ انہی کے سہارے انہیں 2018ء کی اسمبلی میں حکومت سازی کے مراحل سے گزرنا پڑا ، سو وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں اپنی حکومت کی تشکیل کیلئے حصول اقتدار کی خاطر بنائے گئے اتحادیوں کی معاونت ہی کام آئی۔ پھر بھی وزیراعظم صاحب کے دل میں فلور کراسنگ والے ’’بلیک میلروں‘‘ سے سسٹم کو خلاصی دلانے کی لگن قائم رہی۔ انہوں نے سینٹ کے ہر سطح کے انتخابات پر بھائو تائو ہوتے دیکھے تو ان انتخابات کیلئے شو آف ہینڈ کے طریقہ رائج کرنے کی ان کے دل میں تڑپ پیدا ہوگئی۔ اس کیلئے آئین میں ترمیم کی ضرورت تھی جو موجودہ اسمبلی میں ممکن نہیں تھی۔ سو انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے شو آف ہینڈ کا راستہ نکال لیا مگر عدالت عظمیٰ کے فیصلہ نے اس راستے کے آگے بند باندھ دیا۔
 دو روز قبل جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن بنچوں کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے سیاسی جماعتوں میں فلور کراسنگ کی پروان چڑھتی لعنت کے آگے مضبوط بند باندھنے کیلئے ایک بل پیش کرنے کی کوشش کی تو وزیراعظم کی سوچ کے برعکس حیران کن طور پر حکمران پی ٹی آئی کے ارکان نے اس کی مخالفت کا اعلان کردیا حالانکہ سسٹم کو بلیک میلنگ والی فلور کراسنگ سے نجات دلانے کیلئے وزیراعظم عمران خان گاہے بگاہے جن جذبات کا اظہار کرتے رہتے تھے اس کی بنیاد پر تو سرکاری بنچوں کو بھی اس بل کی کلی حمایت کرنی چاہئے تھی۔ ارے صاحب!آپ نے اپنے ان نیک جذبات کو بھی مخالفت برائے مخالفت والی سیاست کی بھٹی میں جھونک دیا تو اس کا ’’سیک‘‘ تو آپ تک پہنچنا تھا۔ ٹکڑوں میں بٹی اپوزیشن اسمبلی کے فلور پر باہم متحد ہوگئی۔ ڈپٹی سپیکر کو حمایت یا مخالفت کیلئے متذکرہ بل ہائوس میں پیش کرنے پر مجبور کیا اور نتیجہ کل عالم نے دیکھا۔ سرکاری بنچوں کو اس بل میں ہزیمت اٹھانا پڑی جس کا وزیراعظم صاحب نے فوری جواب دینے کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ٹھان لی اور اس اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ سمیت حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ہر مسودہ قانون کی منظوری کیلئے سرکاری بنچوں میں جذبہ جہاد کو ابھارنے کیلئے زور لگاتے رہے مگر ایک جائز قانون سازی کو بھی روکنے کیلئے حکومتی انا کا مظاہرہ کرنے کے عمل نے اپوزیشن کے تن مردہ میں نئی روح ڈال دی تھی سو وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی حکومت کو مات دینے کیلئے ڈٹ گئی۔ صرف اپوزیشن ہی نہیں حکومتی اتحادیوں میں بھی بعض جبینیں شکن آلود نظر آئیں۔ وزیراعظم کو ظہرانے میں بعض حکومتی اتحادیوں کی کھری کھری بھی سننا پڑیں تو جذبہ جہاد کو اجاگر کرتے کرتے وزیراعظم کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی بساط لپیٹنا پڑی۔
ارے اب تو کچھ معاملات راز و نیاز کی بساط لپیٹے جانے کی پھلجڑیاں بھی چھوٹتی نظر آرہی ہیں۔ خدا خیر کرے اور سسٹم کی بساط کو کوئی گزند نہ پہنچے کہ قوم نے یہ بساط لپیٹے جانے کا ملک کی تاریخ کے المناک 34 سال کے دوران بہت خمیازہ بھگتا ہوا ہے۔ آپ نے اس بساط کے کھسکنے پر بحالی جمہوریت کی جدوجہد کی خاطر چور ڈاکو کے لیبل والے سیاستدانوں کے کندھے سے کندھا ملا کر ہی کھڑا ہونا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اپنی ’’میں‘‘ کو مار کر اور اپنی انا کی تھوڑی سی قربانی دے کر بساط کے پائوں کے نیچے سے کھسکنے کی نوبت ہی نہ آنے دیں۔ ورنہ تاریخ بہت ظالم ہے ، کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...