انتخابی اصلاحات: حکومت اور حزبِ اختلاف میں اتفاق کی ضرورت

Nov 12, 2021


ایک طرف ملک بھر میں عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے پریشان اور بے حال ہیں تو دوسری جانب حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان انتخابی اصلاحات کے مسئلے پر کھینچا تانی جاری ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان جاری لفظی جنگ میں دونوں طرف سے مسلسل بیانات داغے جارہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ ہر فریق اپنے آپ کو سچا اور دوسرا کو جھوٹا ثابت کرے۔ انتخابی اصلاحات یقینا بہت ضروری ہیں اور انہیں ہر حال میں ہونا چاہیے تاکہ جمہوری اور پارلیمانی نظام کو شفاف اور سیدھے طریقے سے چلانے میں جو رکاوٹیں حائل ہیں انہیں دور کیا جاسکے لیکن اس وقت عوام کو جن بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے ان کا فوری اور دیرپا حل زیادہ ضروری اور اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت اور حزبِ اختلاف کے عوام سے ہمدردی کے دعوے اپنی جگہ مگر عملی معاملات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کو عوامی مسائل کا نہ تو پوری طرح ادراک ہے اور نہ ہی احساس۔علاوہ ازیں، دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جو الزامات کا سلسلہ جاری ہے اس سے بھی فریقین کی غیر سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے مختلف نکات پر متفق ہوئے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
بدھ کو ارکان پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ہمارا مقابلہ مافیاز کے ساتھ ہے، کرپٹ نظام کی پیداوار اپوزیشن جماعتیں تبدیلی کی مخالف ہیں لیکن ہم تبدیلی لے کر آئیں گے۔ پاکستان کی 50 سالہ تاریخ میں ہر الیکشن متنازعہ ہوئے، الیکٹرانگ ووٹنگ مشین (ای وی ایم) سے دھاندلی کے الزامات کا خاتمہ ہو گا۔ الیکشن کمیشن اور حزبِ اختلاف کی طرف سے ای وی ایم کی مخالفت بلاجواز ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم ای وی ایم کے لیے کام کر رہے ہیں تاکہ انتخابات شفاف ہوں۔ اپوزیشن کو بار بار انتخابی اصلاحات کے حوالے سے تجاویز دینے کی دعوت دی ۔ کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھانے والے ہمیشہ اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔
حکومت اور حزبِ اختلاف کے مابین معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمان کا حکومت کی طرف سے بلایا گیا مشترکہ اجلاس اہمیت کا حامل تھا لیکن اسے ملتوی کردیا گیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سماجی رابطے کی ویب گاہ ٹوئٹر پر لکھا کہ ان کی وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جس میں مشترکہ اجلاس سے متعلق اہم امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم کی ہدایت پر انتخابی اصلاحات اور اہم بلوں کو مشترکہ اجلاس میں پیش کرنے کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں سے جلد رابطہ کروں گا تاکہ ان کے تحفظات کو دور کرکے قومی مفاد کے حامل معاملات پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے ہم نیک نیتی سے کوشش کر رہے ہیں کہ ان معاملات پر اتفاق رائے پیدا ہو اسی مقصد کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کیا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اپوزیشن ان اہم اصلاحات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ہم پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کر پائیں گے۔ اگر اپوزیشن کے ساتھ انتخابی اصلاحات پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار نہ کیا جا سکا تو بھی حکومت اصلاحات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی۔ 
ادھر، قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ملتوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنے کالے قوانین پر بری طرح شکست کھا گئی ہے۔ عمران نیازی کو استعفیٰ دے دینا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ اپنے ارکان اور اتحادیوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ مشترکہ اجلاس کا جلد بلانا اور پھر جلد بازی میں ملتوی کرنا حکومت کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے جس نے قانون سازی جیسے حساس اور سنگین مسائل کو بچوں کا کھیل بنا رکھا ہے۔ قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ تحریک انصاف نے رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم (آر ٹی ایس) کے ذریعے 2018ء میں جو کچھ کیا وہ ای وی ایم کے ساتھ اسے دہرانا چاہتی ہے۔ دوسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے تمام اپوزیشن ارکان کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں اپوزیشن کی ایک مشترکہ سٹیئرنگ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا جو اپوزیشن کے فیصلے کرے گی۔ بلاول نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ حکومتی اتحادیوں سے اپوزیشن کی جانب سے رابطوں کے باعث حکومت کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس مؤخر کرنا پڑا۔ پارلیمان ہی فورم ہے کہ جس کو استعمال کر کے ہم عمران خان کی پالیسیوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔
پاکستان میں انتخابی نظام روزِ اول سے ہی دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہا ہے۔ دہائیوں سے اس بات کی واقعی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر انتخابی نظام کے حوالے سے کچھ ایسی اہم اصلاحات کریں جن کی مدد سے انتخابی عمل کو شفاف اور سب کے لیے قابل قبول بنایا جاسکے۔ رائے دہندگی کے اظہار اور نتائج کی تیاری کے لیے برقی مشینوں کا استعمال دنیا بھر میں ہوتا ہے اور یقینا ان کے بہت سے فوائد بھی ہیں لیکن پاکستان میں 2018ء کے انتخابات میں انتخابی نتائج کی منتقلی اور تیاری کے لیے استعمال کیے جانے والے آر ٹی ایس کے باعث جو مسائل پیدا ہوئے ان کی وجہ سے صرف الیکشن کمشن اور اپوزیشن ہی نہیں بلکہ عوام بھی ای وی ایم سے متعلق تحفظات کا شکار ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ الیکشن کمشن اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اس سلسلے میں مکمل طور پر اعتماد میں لے اور عوام کو بھی اس بارے میں رہنمائی فراہم کی جائے کہ ای وی ایم کے فول پروف اور غلطیوں سے پاک استعمال کو کیسے ممکن بنایا جائے گا۔ اس حوالے سے اگر الیکشن کمشن، اپوزیشن اور عوام کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو حکومت کی طرف سے لایا گیا بہترین انتخابی نظام بھی نامقبول ہونے کی وجہ سے ناکام ہو جائے گا۔ انتخابی اصلاحات اور انتخابی نظام میں کسی بھی تبدیلی پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا مکمل اتفاق ہی اسے قابل قبول بناسکتا ہے۔

مزیدخبریں