لیونگ لیجنڈ( Living Legend)کسی بھی قوم یا ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔اور ان کی زندگیوں میں ہی ان کی خدمات کا ادراک کرتے ہوئے انہیں سراہنا زندہ و جاوید قوموں کا شعار ہوتا ہے۔ہمارے ہاں ایک المیہ رہا ہے کہ بہت سی گراں قدر شخصیات کی خدمات کا اعتراف ان کی زندگیوں کے دوران کرنے کی بجائے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کیا جاتا ہے گو کہ ایسی بے مروتی تمام شعبہ ہائے زندگی میں نہیںہوتی مگر پھر بھی کسی حد تک یہ المیہ ابھی بھی برقرار ہے۔جبکہ اس کے برعکس وطنِ عزیز میں ایسے ادارے اور ایسے طبقات موجود ہیں جو اپنے محسنوں کی نمایاں خدمات کا اعتراف ان کی زندگی میں کرتے ہوئے معاشرے پر کیے جانے والے احسانات کا بدلہ چکانے کے لیے اپنے تئیں اور اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈال کرکم ازکم فرض کفایہ ادا کرنے کا جتن کر لیتے ہیں۔اور یقینا اس منفرد کارگزاری پر ایسے ادارے، لوگ یاگروہ تعریف و توصیف کے قابل ہیں۔ پاکستان میں شعبہ صحافت ماضی سے حال تک بے شماراور بے مثال داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ جہاں محنت کے بل بوتے پر اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ سنہری اصولوں پر کار بند رہنے والے شعبہ صحافت کے اوج کمال پر پہنچے وہاں پیر اشوٹر ےا نام نہادصحافی بھی نظر آئے جنہوں نے مادیت کی بنا پر اپنا نام بنایا مگر ایسے نام جتنی جلدی سے ابھرتے ہیں اتنی ہی تیزی سے قصہ پارینہ بھی ہو جاتے ہیں۔مگر نام اسی کا رہتا ہے جو حقیقی اقدار اور رواےات کا امین ہوتا ہے۔ان ناموں میں ایک نام جناب سعید آسی کا بھی ہے۔جو نوائے وقت فیملی ممبر کی حیثیت رکھتے ہیںنوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ سنجیدہ صحافت کا علم بردار ہونے کی بنا پر ایک سند کی حیثیت رکھتاہے اورا س میں بھی کوئی دورائے نہیںکہ اس ادارے نے پاکستانی صحافت کو بڑے بڑے نام اور بڑے بڑے صحافتی ادارے دیے۔ سعید آسی صاحب قریباً نصف صدی سے نوائے وقت سے وابستہ ہیں اور مرحوم مجید نظامی ±صاحب کی رحلت کے بعد نوائے وقت کے نظریاتی اقدار کے بہادر اور سچے سپاہی ثابت ہوئے ۔دوسرے لفظوں میں انہیں مجید نظامی کی فکر کا گدی نشیں کہہ لیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔گزشتہ ہفتہ لاہور پریس کلب کی لٹریری سوسائٹی نے سعید آسی صاحب کی بے بہا اور گراں قدر صحافت وادبی خدمات کے اعتراف کے سلسلہ میں©©ان کے اعزاز میں خصوصی تقریب رکھی ۔آسی صاحب سے میرا تعلق انتہائی نیاز مندی والا ہے۔ ویسے تو نوائے وقت سے وابستگی سے لے کر اب تک ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملامگر اپنے یوٹیوب چینل کے انٹرویو کے دوران ہونے والی گفتگو میں ان کی ذات کو مزید قریب سے دیکھنے اور بہت کچھ جاننے کو ملا کہ کیسے انہوں نے اپنے پسندیدہ پیشہ کی نسبت والدین کے حکم کی بجا آوری کو ترجیح دی اور یہی مودب پن پھر ان کو پاکستان کا ایک عظیم صحافی بنانے کا سبب بنا اور نوائے وقت سے عشق کی حد تک لگاو نے انکو ہمیشہ کے لئے نوائے وقت کا ہی مکیں کر کے رکھ دیا اور مرحوم مجید نظامی کی شاگردی میں آنے کے بعد کیسے ان کے صحافتی کیرئیر کو دوام بخشا۔
آسی صاحب کے اعزاز میں رکھی جانے والی اس تقریب میںا ن کے بہت سے ایسے رفقا نے بھی شرکت کی جو خود بھی لیونگ لیجنڈ سے کم نہیں ہیں۔شرکا¿ میں ڈی جی پلاک صغریٰ صدف، سینیئر صحافی سرفراز سید، حامد ریاض ڈوگر، دین محمددرد، اشرف سہیل ، جبکہ شعرا میں اعتبار ساجد، ناصر بشیر و دیگر شامل تھے۔ لاہور پریس کلب کے صدراعظم چوہدری اور سیکریٹری عبدالمجیدساجد نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ طارق کامران کی نظامت میں ہونے والی اس تقریب میں تمام شرکاءنے آسی صاحب کے حوالے سے اپنے اپنے افکار و خیالات کا اظہار کیا۔ صغریٰ صدف نے سعید آسی کی سادہ مزاجی اور سادہ زندگی کے پہلوﺅں پر بات کرتے ہوئے کہاکہ آسی صاحب ہر قسم کے تصنع سے پاک شخصیت کے مالک ہیں۔ جیسے وہ اندر سے نظر آتے ہیں ویسے ہی وہ باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ آسی صاحب کی شاعری بہت اچھوتی اور پر سوز ہے اور جب کبھی بھی پنجابی ریڈیو ایف ایم 95 پر انکے ادبی شہ پاروں میں سے بہت سے گانے( ریکارڈ نگ) آن ائیر کئے گئے تو میرے اکثر قریبی لوگوں کو جب یہ علم ہوتا ہے کی سعید آسی کے لکھے گیت ہیں تو نہ صرف وہ تعریف کرتے ہیں بلکہ متاثر ہوئے بنا نہیں رہتے۔ سرفراز سعید نے آسی صاحب سے وابستہ ماضی کے دریچوں میں سے چند واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے صحافیانہ قدوقامت پر اظہار خیال کیا۔ شاعر اعتبار ساجد نے آسی صاحب کے نام ایک نظم کہہ کے محفل لوٹ لی۔ جبکہ ریڈیو گلوکارعنایت عابد نے آسی صاحب کا کلام ترنم میں گا کر حاضرین سے داد حاصل کی ۔
اس تقریب میں شرکا ءکی سعید آسی کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں یکسانیت اس بات کی شاہد نظر آئی کہ درحقیت آسی صاحب ایک درویش منش شخصیت ہیں اور جن کی ذات پر عہدے یا مرتبہ کی چکا چوند بھی اثر انداز نہ ہو سکی اور وہ اپنے فکری اور نظریاتی مشن پر گامزن سفر ہیں جو نہ صرف صحافتی حلقہ احباب کے لئے باعث تقلید ہیں بلکہ لاہور کے اپنے سکو نتی علاقہ سبزہ زار کو بھی ذاتی کاوشوں کی بدولت حقیقی طور پرسبزہ زاربنا یا اور یوں اپنی خدمات کی بدولت علاقے کے لوگوں کے لئے ایک مثال ٹھہرے ۔ اللہ آسی صاحب کو تاعمر ان کے عظیم مقصد کی سر بلندی کے لئے استقامت عطافرمائے رکھے آمین۔