قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں، وہ چاہے تو گدا کو شاہ کر دے اور شاہ کو گدا کر دے۔ اگر اس کی مرضی ہو تو بادشاہ بھی تخت سے تختے پر آ جاتے ہیں۔ قدرت نے یہ طاقت اپنے ہاتھ میں رکھنے کے ساتھ انسان کو جہدِ مسلسل کا درس دیا ہے اور اسے تحریک بھی دی ہے کہ وہ اپنے لیے منزلوں کا تعین کرے، پھر اس کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ بعض اوقات یہ جدوجہد ایک نسل سے دوسری، پھر تیسری نسل تک بھی جاری رہتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے انسان کی کوششوں کے ساتھ کبھی کبھی قدرت بھی مہربان ہو جاتی ہے اور انسان اپنی منزل پا لیتا ہے۔ ایسی ہی جدوجہد اور عزم کی دو مثالیں ہماری اعلیٰ عسکری و سول بیوروکریسی میں بھی ملتی ہیں جہاں باپ اگر کسی منزل کے حصول میں ناکام رہا تو جاتے ہوئے اپنی اولاد کو ٹارگٹ سونپ گیا۔
ایسی ہی مثال ہمارے سامنے جنرل علی قلی خان کے والد جنرل حبیب اللہ کی ہے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم میں کئی کارنامے سرانجام دیے۔ جنرل حبیب فیلڈ مارشل ایوب خان کے سمدھی تھے یعنی جنرل حبیب کی صاحبزادی جنرل ایوب کی بہو اور گوہر ایوب کی اہلیہ تھیں۔ ایوب خان جب آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ کر نیا چیف بنانے لگے تو اس وقت میرٹ پر جنرل حبیب نمبر ون پر تھے مگر وہی شریکہ برادری والا، بیک ورڈ رسم و رواج اڑے آگیا اور ایوب کو مشورہ دیا گیا کہ اگر آپ کے سمدھی چیف بن گئے تو طاقت کا محور ایوان صدر کی بجائے جنرل حبیب کا گھر ہوگا۔ جنرل ایوب کو اس مشورے میں دم خم نظر آیا اور انھوں نے جنرل حبیب کو اپنا رشتہ دار ہونے کے جرم میں سپرسیڈ کر دیا اور جنرل حبیب کا وہ خواب چکنا چور ہوگیا جو کم از کم بیس سال سے وہ آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے۔ جنرل حبیب نے جنرل ایوب کی جانب سے کیے گئے سلوک کا صدمہ اس قدر زیادہ لیا کہ وہ بسترِ مرگ سے جا لگے اور ایک طویل علالت کاٹی۔ جب صحت بگڑتی گئی تو ایک روز گوہر ایوب کو بلایا اور کہا تمھارے سسر نے میرے ساتھ ناانصافی کی۔ اب میں آپ سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ تمھارا بھائی جو اس وقت میجر ہے انشااللہ جنرل بنے گا اور میری جگہ میرٹ پر آرمی چیف بھی منتخب ہوگا۔ میں تو شاید اس وقت تک نہیں رہوں گا۔ تم، تمھارا سسرال اور ان کی سیاست میرے بیٹے علی قلی کے آڑے آئے گی اور اس کے چیف بننے میں رکاوٹ بنی تو تم علی قلی کا ساتھ دینا۔ اس وعدہ کے بعد جنرل حبیب خالق حقیقی سے جا ملے۔
وقت کا پہیہ گھوتا رہا اور علی قلی جنرل بن گئے۔ وہ جنرل جہانگیر کرامت کے منظورِ نظر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی پروفیشنل بھی تھے۔ جہانگیر کرامت نے چودھری نثار علی خان کے بھائی جنرل افتخار کو ریٹائرمنٹ پر ایکسٹینشن دینے سے معذرت کرکے ان کی جگہ جنرل علی قلی کو پوسٹ کردیا۔ اب اس بات کا انتظار ہونے لگا کہ جہانگیر کرامت ریٹائر ہوں تو جنرل علی قلی اپنے والد کی اور اپنی خواہش کی تکمیل فوج کی سپہ سالاری پر فائز ہو کر کریں مگر قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ چودھری نثار اپنے بھائی جنرل افتخار کا بدلہ علی قلی سے لینے کی ٹھان چکے تھے۔ چودھری نثار نے نواز شریف کو سلو پائزنگ شروع کردی کہ اگر علی قلی آرمی چیف بنے تو مسلم لیگ گوہر ایوب خاندان کی لونڈی بن جائے گی اور ہم منہ تکتے رہ جائیں گے اور پھر کور کمانڈر منگلا جنرل پرویز مشرف کو رات کے اندھیرے میں نواز شریف کو ملوایا اور ایک مرتبہ پھر تیس سال کے بعد جنرل حبیب کے سپوت جنرل علی قلی گوہر ایوب فیملی کی بھینٹ چڑھ کر موسٹ جونیئر کے ہاتھوں سپر سیڈ ہوکر گھر واپس آگئے۔
دوسری کہانی حیات اللہ سنبل کے خاندان کی ہے جو سول سروس میں انتہائی فرض شناس، ایماندار اور اصول پسند افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ اپنے کیریئر کے عروج پر جب چیف سیکرٹری بننے کی باری آئی تو اس وقت کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں نے حیات اللہ سنبل کا میرٹ پر انتخاب کیا اور اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو نام بھجوا دیا مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ نواز شریف کو پرویز مسعود نے اپروچ کیا اور نواز شریف نے حیات اللہ سنبل کی جگہ پرویز مسعود کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کر دیا۔ اس طرح ایک فرض شناس افسر صرف اس وجہ سے پنجاب کا چیف سیکرٹری نہیں بن سکا کہ وہ نوکری میں سفارش پر یقین رکھنے کی بجائے کام پر اکتفا کیے ہوئے تھا۔ حیات اللہ سنبل نے دل برداشتہ ہونے کی بجائے اپنے دو بیٹوں سیف اللہ سنبل اور عبداللہ سنبل کو مقابلے کے امتحانات کی تیاری کرائی اور سول سروس میں بھجوایا۔
یہ حیات اللہ سنبل کا مشن تھا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کی پرورش ایسی کریں کہ وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر سخت سے سخت حالات کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کرسکیں۔ سیف اللہ سنبل تو خوب سے خوب تر کی تلاش میں نوکری چھوڑ کر امریکا شفٹ ہوگئے مگر عبداللہ سنبل نے جدوجہد جاری رکھی۔ وہ ایک محنتی، فرض شناس، ایماندار افسر کے طور پر پہچانے جانے لگے۔ تمام تر مشکل مراحل طے کرتے آخر کار اپنے والد کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے میں اللہ کی رضا اور اپنے والدین کی دعاؤں سے کامیاب تو ہوگئے مگر عبداللہ سنبل کو پہلی مرتبہ پتا چلا کہ جن کو وہ اپنا قریبی ’دوست‘ سمجھتے تھے وہ ان کی اس کامیابی سے کتنے نالاں ہیں مگر وہ سب بھول کر قائداعظم کے فرمان کے مطابق ’کام، کام اور صرف کام‘ پر جتے رہے اور اللہ پاک سے دعاگو رہے کہ میرے خلاف لابنگ کرنے والوں کو ہدایت دے اور مجھے اپنی پناہ میں رکھ۔ ویسے بھی عبداللہ سنبل کے والد حیات اللہ سنبل ابھی بھی اپنے بیٹے کی تربیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اب تو حیات اللہ سنبل ہاتھ میں چھڑی بھی تھامے ہوتے ہیں۔ عبداللہ سنبل کے خلاف جو دوست احباب سازش کر رہے ہیں وہ آج بھی ان کے کام اس امید کے ساتھ کرا دیتے ہیں کہ شاید وہ بھی ان کے لیے مثبت جذبات رکھنے لگیں۔