سودا کا ایک مشہور شعر بعض احباب مرزا غالب سے منسوب کر دیتے ہیں
فکرِ معاش و عشقِ بتاں‘ یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیاکیا کیاکرے
مصرعہ ثانی کی شکل ثانی یوں بھی لکھی ملتی ہے کہ
ع ”چھوٹی سی عمر میں کیا کیا کرے کوئی“ جوکہ غلط ہے۔خیر‘ دوسرے مصرعے میں ”کیا“ کا لفظ ایک ساتھ تین بار استعمال کرنے کی کوئی اور مثال شاید ہی ہو۔ کیا کی اس تکرار سے صحافت کے تین ”ڈبلیو“ یاد آتے ہیں۔ دیکھا جائے تو صحافت جس کا جدید اور جامع نام ”میڈیا“ ہے‘ کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ وقت کم‘ ”مٹیریل“ یا ”کنٹیکٹ “ بہت زیادہ جو کچھ دنیا میں ہے‘ سب کچھ پیش کرنا ہے۔ ادھر پاکستان میں البتہ فہرست خاصی سکڑ گئی ہے۔ یہاں صرف پاکستان کی بات ہوتی ہے‘ مطلب یہ کہ زیادہ تر۔۔ باقی زمانے بھر کا غم کم ہی ملتا ہے۔ بیشتر سیاست کچھ جرم و غیرہ اور ہاں اچھا خاصا حصہ عشق بتاں پر بھی بعنوان شوبز۔ مجموعی طورپر میڈیا کی شکل زیادہ تر یہ ہے کہ ”کس نے کیا کہا“ کے لیے وقت اور جگہ زیادہ ہے اور کس نے کیا کیا‘ اس کیلئے کم اور پچھلے کچھ عرصہ سے میڈیا
کچھ غم دوراں‘کچھ غم عمراں تک محدود ہو گیا ہے۔ اور غم دوراں کم‘ غم عمراں زیادہ۔ عمرانیات کے بعد اگر کچھ جگہ اور وقت بچے تو غم دوراں کو مل جاتا ہے۔ یہی ہو رہا ہے۔ کسی بھی چینل یا اخبار کوکھول کر دیکھ لیجئے۔
................
دنیا بھر میں اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور پاکستان میں بھی‘ لیکن اس کا ذکر آجائے تو قاری اور ناظر اسے مداخلت بیجا سمجھتا ہے۔ اب یہی خبر دیکھ لیجئے جو چنائی (سابقہ مدراس‘ بھارت) سے آئی۔ کتنوں نے پڑھی ہوگی۔ خبر یہ ہے کہ بریانی کی ایک پلیٹ نے بوڑھے میاں بیوی کی جان لے لی۔ ویسے سرخی یوں غلط ہے کہ اس میں قاتل بریانی کو قرار دیا گیا ہے‘ ماجرا جبکہ کچھ اور تھا۔ ایک ریٹائرڈ ملازم 74 سالہ کرونا کرن اپنے لئے باہر سے بریانی کی پلیٹ لایا اور اکیلا ہی کھانے لگا۔ اس کی 70 سالہ بیوی پدماوتی بھی بھوکی تھی۔ اس نے کہا کہ تھوڑی مجھے بھی دو تو کرونا کرن مشتعل ہو گیا اور تیل چھڑک کر بیوی کو آگ لگا دی۔ بیوی کو آگ لگی تو اس نے خاوند کو ”جھپا“ مار لیا
ہم تو جلتے ہیں صنم‘ تم کو بھی جلا ماریں گے
یوں دونوں جل کر مر گئے۔
اس ایک خبر پر معاشیات‘ سماجیات اور نفسیات تینوں شعبوں کے ماہرین کیلئے دعوت غور و فکر ہے۔ خبر بڑی دردناک ہے اور اس باب میں تحقیق طلب کہ ایسا کیوں ہوا یا ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ایک بڑے روسی ادیب نے اپنے ایک ناول کے شروع میںکمال کا فقرہ لکھا تھا کہ جب جسم بوڑھے ہوتے ہیں تو محبت جواں ہوجاتی ہے۔ لیکن یہاں تو ماجرا الٹ ہو گیا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ زندگی کے آلام و مسائل نے بڑے میاں کو نفسیاتی مریض اور پھر قاتل بنا دیا جو دوران واردات خود بھی مقتول ہو گیا۔
................
یہ جو بھی آزار ہے‘ پاکستان کے کچھ زیادہ ہی درپئے آزارہے۔ سماجیات‘ نفسیات اور معاشیات ہی نہیں‘ دینیات کے ماہرین کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ انہی کو سوچنا ہوگا کیونکہ حکومت و ریاست ایسی بے کار سوچوں سے دور ہی رہتی ہے۔ جوکچھ پاکستان میں ہو رہا ہے‘ وہ اب ہر روز کا ماجرا بن گیا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے‘ کل کے اخبار میں چھپنے والی یہ خبر کہ حافظ آباد میں شگفتہ نامی خاتون نے شوہر سے جھگڑے کے بعد اپنے اڑھائی سال اور ایک سال کی عمر کے دو بچوں کو چھری سے ذبح کر دیا۔ لفظ جھگڑے کی تشریح کر لیجئے‘ ایک لفظ میں دکھ‘ درد‘ وحشت کے کتنے باب ہوں گے۔ شگفتہ نے یہ سارے باب پڑھ کرہی اپنے دو لخت جگر قتل کئے ہونگے اور چند ہی روز پہلے کی بات ہے‘ کھاریاں میں ایک شخص نے‘ خبر کے مطابق‘ غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے چھ اور نو سال کی عمر کے دو بچوں ابوبکر اور بسمہ کو زہر دیکر مار ڈالا اور اس سے کچھ دن پہلے کسی باپ نے اپنی چھ سالہ بچی پانی میں ڈبو کر قتل کر دی۔ نوشہرہ ورکاں میں 5 سالہ بچے کو زیادتی کے بعد قتل کردیا۔مدثر نامی بچے کی لاش سکول سے ملی۔ رحیم یارخان میں ایک 25 سالہ خاتون کو ماں بننے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کے جیٹھ نے ”کاری“ ہونے کا الزام لگا کر گردن کاٹ کر مار ڈالا۔ نوزائیدہ بچہ چھ گھنٹے کی عمرہی میںیتیم ہو گیا۔ یہ بھی اسی ہفتے کی خبر ہے اور اس خبرکے اندر ایک اور خبر یہ ہے کہ مقتولہ جان بچانے کیلئے ہمسایوں سے مدد مانگتی رہی‘ لیکن کوئی اپنے گھرسے نہیں نکلا۔ سب نے دروازے بند کر لئے۔ چارسدہ میں ایک خاتون نے اپنی دو سوتیلی بیٹیوںکو زہر دیکر قتل کردیا۔ لاہور میں کسی نے 5 سالہ بچے ایان کا گلا کا ٹ کر نعش ریلوے لائن کے پاس پھینک دی۔ حیدرآباد میں سات سالہ بچی زارا فیصل کی لاش چھت سے اس حالت میں ملی کہ ننھے سے جسم پر زخموں کے کئی نشانات تھے۔ قاتل نے جابجا چھریوں سے کٹ لگائے۔ پھر پھندے سے پھانسی دیدی۔ کراچی میں کل ہی ایک عورت بارہ سالہ بچے کی لاش ہسپتال میں پھینک گئی۔ بچے کو کئی افراد نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر مار ڈالا۔یہ تمام واقعات 2 سے 10 نومبر تک کے ہیں۔ یعنی ایک ہفتہ بھر کے۔اسی دوران قتل ہونے والی عورتوں کی بھی کئی خبریں آئی ہیں اور ایسی بھی کہ کتنے بچے زنجیروں میں جکڑے ہوئے پولیس نے بازیاب کرائے اور کتنے کمسن گھریلو ملازم سخت تشدد کے بعد نیم بے ہوشی کے عالم میں ملے۔
یہ سب اس ملک میں ہو رہا ہے لیکن میڈیا پر اس بارے میں کوئی پروگرام نہیں‘ کسی سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی رہنما کے پاس اس پر بیان دینے کی فرصت نہیں۔ میڈیا پر عمران خان کا لانگ مارچ چھایا ہوا ہے جو راستوں میں بھٹک رہا ہے۔ جس مقصد کیلئے یہ مارچ ہو رہا ہے‘ وہ محض ایک میت بن گیا۔ مقصد کسی کی ریٹائرمنٹ روکنا تھا۔ اس کے بارے میں اعلان آگیا کہ وہ مقررہ تاریخ تک ہو کے رہے گی۔ الوداعی ملاقاتیں شروع ہو گئیں۔ لانگ مارچ اب زندہ وجود نہیں رہا‘ پریت آتما بن چکا‘ لیکن یہ آتما سڑکوں پر بھٹک رہی ہے اور میڈیا اس کے پیچھے سرگرداں ہے۔ یہ اس ملک کی قسمت ہے۔ بری قسمت کہئے۔