پرائیویٹ سکولز، والدین اور اہل اقتدار

مختلف طبقاتی نظام تعلیم نے قومی اتحاد کو متاثر کر دیا۔ کچھ دن قبل ایک ویڈیو سوشل میڈ یا پر وائرل ہوئی جس میں دو بچے ایک نامور سکول کے باہر بیٹھے ہوئے دکھائی دیئے جب ان سے وجہ پوچھی تو بچوں نے بتایا کہ ان کے والدہ بیمار ہیں جس کے باعث کچھ ماہ سے سکول فیس  ادا نہیں  ہوسکی ، اس لئے ہمیں سکول سے باہر نکال دیا گیا ۔ ہم اس وجہ سے نہیں جار ہے کہ گھر میں والد صاحب کو یہ خبر سن کر  مذید بیمار نہ ہو جا ئیں گے ۔ ہم ہر روز صبح سویرے سکول آتے اور باہر  بیٹھ جاتے ہیں اور چھٹی ٹائم واپس چلے جاتے ہیں… نہ جانے ایسے کتنے واقعات اور ہیں جنہیں شمار کرنا  مشکل ہے ۔  آرٹیکل 25 الف میں واضع درج ہے کہ پہلی سے پانچویں جماعت تک کا ہر بچہ مفت تعلیم حاصل کرے گا اورفراہمی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے ۔افسوس کسی بھی حکومت نے 74 سال میں تعلیم کو اپنی تر جیحات میں شامل نہیں کیا ۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ انہی قوموں نے ترقی کی ہے جن کی اولین ترجیح تعلیم رہی۔ قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد ہی طبقاتی نظام تعلیم کا انجکشن  تعلیمی نظام کو لگا جو ہماری قومی یکجہتی کو سیلاب  کیطرح بہا کر لے گیا ہم آج تک اس فرسودہ نظام تعلیم سے جان چھٹروانہ سکے ۔  اگر کسی حکومت نے مختلف نظام تعلیم کو ایک سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی تواشرافیہ نے اس میں روڑے اٹکائے۔ ہم پر ائیو یٹ سکولوں مالکان سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ ماہانہ فیس  میں تھوڑا کمی کر یں اور جن والدین  کے پاس استطاعت نہیں ہے تو انکے لئے آسانیاں پیدا کریں ۔ حکومت ایک قدم آگے بڑھے اور مختلف نظام تعلیم کو ایک سانچے میں ڈالے تو شاید ہم ایک قوم بننے کے سفر کا آغاز کرسکیں۔ حکومت ساتھ ساتھ ایک مانیٹرینگ سیل قائم کرے جومختلف سکولوں کا دورہ کرکے  ایک مفصل رپورٹ تیار کرے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تعلیم جو ہر بچے کا بنیادی حق ہے اسکو اتنے مہنگے داموں کیوں بیچا جا تا ہے اور مختلف سائلین کی شکایات بھی سنے ۔ حکومت طبقاتی نظام تعلیم سے جان چھڑوائے اور یکجا نظام تعلیم کو رائج کرنے کیلئے کوئی کارآمد پالیسی بھی بنائے جس کے عملی اقدامات زمین پر بھی نظر آئیں 
(راجہ ثاقب عباسی ایڈووکیٹ،03465009494اسلام آباد)

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...