اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) نگراں وزیر اعلی خیبر پی کے اعظم خان کے انتقال کے بعد صوبے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا۔ ماہر قانون حافظ احسان نے کہا ہے کہ کیونکہ نگراں وزیراعلی اعظم خان انتقال کر گئے ہیں اس لیے ان کی کابینہ بھی خودکار طریقے سے تحلیل ہو جائے گی۔ کسی کے خلاف اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جائے۔ وزیراعلی مستعفی ہو جائے یا اس کا انتقال ہو جائے، تینوں ہی صورتوں میں سب سے پہلا کام جو ہوگا وہ یہ کہ کابینہ تحلیل کر دی جائے گی۔ کوئی معمول کا معاملہ ہوتا تو اسمبلی اپنا لیڈر آف دی ہا¶س منتخب کرتی۔ اب صرف ایک ہی آپشن آرٹیکل 224 بچ جاتا ہے جس کے تحت نگراں وزیر اعلی لگانے کا اختیار گورنر کے پاس ہے۔ اب گورنر کی ذمہ داری ہے کہ وہ آرٹیکل224 کو نافذ کرے۔ سابق ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے شمائل بٹ کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 اے کے مطابق نگراں وزیراعلی کا تقرر وزیراعلی اور اپوزیشن نے کرنا ہے۔3 روز کے اندر لیڈر آف دی ہا¶س اور لیڈر آف دی اپوزیشن نے بیٹھنا ہو گا۔ اگر نگراں وزیر اعلی کے نام پر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ کمیٹی یا پھر الیکشن کمشن کے پاس جائے گا۔ آئین میں ایک ہی نگراں وزیراعلیٰ کی تقرری کا طریقہ کار ہے، دوسرے نگراں وزیراعلی کا نہیں۔ بعض آئینی ماہرین کا مﺅقف ہے کہ وزیراعلی کی تعیناتی کے حوالے سے آگے کیا ہوگا اس حوالے سے آئین خاموش ہے۔ آئین میں نگراں وزیر اعلیٰ کی ایک بار تقرری کے طریقہ کار کا ذکر تو ہے نگراں وزیر اعلی کی وفات ہو جائے تو اس صورتحال پر کوئی طریقہ کار درج نہیں۔ گورنر‘ وزیراعلی، قائد حزب اختلاف سے مشاورت کر کے نگراں وزیر اعلی کا تقرر کرتا ہے۔ نگراں وزیر اعلیٰ کے نام پر اتقاق نہ ہونے پر معاملہ رخصت ہونے والی صوبائی اسمبلی کی کمیٹی کے پاس جاتا ہے۔ کمیٹی میں اتفاق نہ ہو تو معاملہ الیکشن کمشن کے سپرد ہوتا ہے۔ آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ نگراں کابینہ کا تقرر بھی نگراں وزیر اعلی کی تجویز پر کیا جاتا ہے۔ تقرری میں سینٹ اور قومی اسمبلی کا کوئی کردار نہیں، بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بارے میں سپریم کورٹ سے ہی کوئی تشریح کروائی جا سکتی ہے۔