اسلام آباد (عترت جعفری) نگران وزیراعلی خیبر پی کے اچانک رحلت پیچیدہ آئینی قانونی اور انتظامی مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ ملک کے اندر نگران سیٹ اپ جس قانونی اور آئینی ڈھانچے کے تحت ہے اس مےں اس طرح کی ناگہانی صورت حال کا کوئی حل نہیں دیا گےا، اگر چہ کچھ قانونی حلقوں نے اس بارے میں آرا دی ہےں جن میں سینٹ میں قائد اےوان اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت، پارلیمانی مرحلہ اور الیکشن کمشن کی طرف سے ایک نئے نگران وزیراعلی کی تعیناتی کی باتیں سامنے آئی ہیں، تاہم ان آرا ءمےں بہت سقوم موجود ہیں۔اس وقت منتخب اسمبلی موجود نہیں، وزیراعلی اور قائد حزب اختلاف بھی موجود نہیں ہے، نہ وہ کمیٹی موجود ہے جوصوبائی اسمبلی مےںحکومتی اور اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل ہوتی ہے، اس وقت محض یہ انتظام موجود ہے کہ اگر منتخب حکومت یا حکومت نہ ہو تو گورنر انتظامی سربرا بن سکتے ہیں جیسا کہ کے پی کے میں کےا گےا ہے ، ، نگران حکومتوں کے حوالے سے انتظام کرتے ہوئے کبھی یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ ناگہانی واقعہ رو نما ہو تو کیا جائے گا، بعض قانونی حلقوں کا کہنا تھا کہ حکومت کو راہنمائی کے لئے ایک ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرنا چاہیے، ،اس وقت گورنر کے پی کے جے یو ائی سے وابستگی رکھتے ہیں، ان کے پاس تمام انتظامی مالی اختیارات کا جمع ہو جانا، مزید سیاسی مسائل کا باعث بنے گا، نگران وزیراعظم جو اس وقت سعودی عرب میں ہیں آج وطن واپس آ جائیں گے۔ انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آمد کے بعد قانونی ماہرین سے صورتحال پر بات چیت کریں گے اور اس صورتحال کا حل نکالنے کے لیے باہمی مشاورت کی جائے گی، اس کے بعد حکومت کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی،قومی اسمبلی سیکرٹریٹ شعبہ قانون سازی کا مو¿قف ہے کہ انتقال کی صورت میں نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے طریقہ کار پر آئین خاموش ہے، آئین کے آرٹیکل 224 اور 224 اے کے تحت نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہوگا۔ اےک موقف ےہ بھی ہے کہ انتخاب کیلئے گورنر کو سابق وزیر اعلیٰ اور سابق اپوزیشن لیڈر کو خط لکھنا ہوں گے اور دونوں رہنماو¿ں سے تین، تین نام مانگنا ہوں گے۔ قانونی ماہر حسن رشےد د صدےقی کا کہنا تھا جب ایک عبوری حکومت کے منتخب یا نامزد ریاستی وزیر اعلیٰ کا انتقال ہو جاتا ہے تو جانشینی کا سوال ایک پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ کام کرنے والی پارلیمنٹ کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے معمول کا طریقہ کار دستیاب نہیں ہے۔ اس سے سیاسی خلا پیدا ہو سکتا ہے اور حکومت کے استحکام کے بارے میں خدشات بڑھ سکتے ہیں ان حالات میں الیکشن کمشن کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے ذمہ دار خودمختار ادارے کے طور پر، الیکشن کمشن کو منتخب پارلیمان کی غیر موجودگی میں بھی جمہوری عمل کو برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ یہ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ مناسب طریقہ کار کا تعین کرے، جس میں ضمنی انتخابات کا انعقاد یا نئے وزیر اعلیٰ کی تقرری کو پارلیمنٹ کے قائم ہونے تک ملتوی کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ کچھ صورتوں میں، الیکشن کمشن قانونی ماہرین اور سیاسی رہنماو¿ں سے مشاورت کر سکتا ہے تاکہ آگے بڑھنے کے بہترین طریقے پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ دیگر معاملات میں، کمشن آئین اور انتخابی قوانین کی اپنی تشریح پر انحصار کرتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کر سکتا ہے۔ نیپال میں، 2009 میں ایک عبوری وزیر اعلیٰ کی موت کے بعد سیاسی جماعتوں نے نئے عبوری وزیر اعلیٰ کی تقرری پر اتفاق رائے کےا تھا ، اطلاعات ونشریات کے نگران وزیر مرتضیٰ سولنگی نے صحافیوں پر زور دیا ہے کہ انتخابات کی خبریں دیتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔