جعلی روحانیت اور دیوانوں کی دنیا

شب جمعہ کی وہ ایک اندھیری رات تھی ، ہر طرف ھو کا عالم تھا ، شہر کے شوروغل سے کوئی چار کلومیٹر دور اس چھوٹی سی دیہاتی آبادی کی چھوٹی سی درگاہ سے متصل حجرہ ، برآمدہ اور صحن میں جنت کی سیر کے متلاشی مریدین تین عورتیں اور 17 مرد کسی نامعلوم نشے کے تحت گہری نیند میں غرق ھو چکے تھے۔۔۔ اس ہولناک سناٹے میں چار انسانی ھیولے حرکت میں تھے ،،، جو ان سوئے ھوئے مریدین کی جانیں نکالنے کے لیے چھریاں تیز کر رھے تھے اور ڈنڈے تیار کر رھے تھے۔۔۔ اس پ±رتشدد ھلاکت کا بظاہر مقصد انسانی جسم کو گناہوں سے پاک کر کے جان نکالنا تھا۔۔۔ تاکہ یہ پاک ھو کر جنت میں جائیں اور پھر جنت کی سیر کرنے کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرنے کا معجزہ بھی رونما کر دیا جائے ؛؛؛ جبکہ روحانیت کے نام پر بھٹکے ھوئے یہ کردار اس حقیقت سے بھی واقف نہیں تھے کہ تاریخ میں مر±دوں کو زندہ کرنے کے معجزات صرف نبیوں سے ا±ن مر±دوں کے ساتھ ھوئے تھے جو قدرتی موت مرے تھے نہ کہ خودکشی سے۔۔۔۔۔
آج سے ساڑھے پانچ سال قبل یکم اپریل 2017 ءکو سرگودھا کے شمالی مضافاتی گاو¿ں چک 95 میں علی محمد قلندر کا یہ مزار تھا ، جو اس واقعہ سے تین سال قبل ہی فوت ھو چکے تھے ، دربار کا متولی عبدالوحید الیکشن کمشن پنجاب کا سرکاری افسر تھا۔ اس متولی کے ساتھ بھی تین اس کے خلیفہ تھے ، دردناک طریقے سے مرنے اور مارنے والے اس شیطانی عمل کے یہ تمام کردار خود کو کسی روحانی منصب پر فائز بھی تصور کر رھے تھے۔۔۔ بیس انسانی جانوں کو درندگی سے موت کے گھاٹ ا±تارنے کا یہ مرحلہ یکدم طے نہیں ھوا بلکہ جمعے کی رات سے شروع ھو کر ہفتے کی گہری رات تک جاری رھا ،،، مرنے والوں کے کچھ لواحقین کو بھی اس اختیاری عمل کا علم تھا جن سے بات نکل کر پولیس تک پہنچی اور اتوار کی صبح جب تھانہ صدر سرگودھا کی پولیس نے چھاپہ مارا تو 17 مرد اور تین عورتوں کی ذبح اور مسخ شدہ کٹی پھٹی لاشیں وہاں موجود تھیں ان کے علاوہ کچھ زخمی بھی تھے۔۔۔ متولی عبدالوحید اور اس کے تینوں خلیفہ وہیں ان لاشوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے کسی چلہ میں مصروف تھے۔
پولیس نے متولی اور اس کے تینوں ساتھیوں کو حراست میں لے لیا ، مرنے والوں کے لواحقین میں سے کوئی بھی پیر کے خلاف مقدمہ درج کرانے کو تیار نہ ھوا۔ پولیس کو چوبیس گھنٹے انتظار کے بعد خود مدعی بننا پڑا۔۔۔ ا±لٹا سب یہی سمجھ رھے تھے کہ ،، پولیس نے ان کے پیر کو چلے سے ا±ٹھا کر غلط گرفتار کیا ھے ،،، اگر پولیس یہ مداخلت نہ کرتی اور پیر کا چلہ مکمل ھو جاتا تو تمام مرنے والے جنت کی سیر کرنے کے بعد زندہ ھو کر واپس آ جانے تھے !!!
اس واقعہ کے دو سال بعد 2019ء میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس پیر عبدالوحید اور اس کے تین ساتھیوں کو 27/27 بار سزائے موت ، سو سال قید اور جائیداد ضبط کرنے کی سزا تو سنا دی ، لیکن اس علاقے کے الگ الگ رنگ و نسل اور ج±دا ج±دا کاروباروں اور برادریوں سے وابستہ وہ مریدین جو ایسے جعلی درباروں ، درگاہوں اور پیروں کی اندھی عقیدت میں مشترکہ طور پر مبتلا تھے شاید آج بھی یہی تصور کرتے ھیں کہ اگر پولیس ان کے پیر کو گرفتار نہ کرتی تو آج وہ مرنے والے زندہ ھو چکے ھونے تھے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں روحانی اور شیطانی طاقتیں وجود رکھتی ھیں ، فرعون کے جادوگروں کی شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرانے کے لیے ھی اللہ تعالی کی ذات نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی باقاعدہ تربیت کراتے ھوئے ان کو ایسے علوم بتائے جن کا تورات میں ذکر اور طریقہ کار بھی موجود ھے اور اس مقصد کے لیے ان سے مقدس عبادت گاہ بھی تیار کرائی جس میں پردوں قالینوں اور خیمے کی بناوٹ اور سائز سے لیکر سونے کی مقدس میز اور صندوق کے سائز اور ان پر لگنے والے سونے چاندی کی مقدار تک بتائی گئی ھے اور سونے چاندی کی شمع دان پر لگنے والے ہیروں کی تعداد اور مقام تک کا تعین بھی تورات میں موجود ھے۔ یہ سارے اقدامات فرعون کے جادوگروں کے شیطانی عمل کا مقابلہ کرانے کی خدا کی طرف سے تیاریاں تھیں۔ 
روحانیت کی بھی اپنی ایک دنیا ھے جس میں کوئی انسان درست پیرائے پر پہنچ جائے تو انسانیت کی معراج پا لیتا ھے لیکن اگر بھٹک جائے تو شیطانیت کا پیروکار بن جاتا ھے۔۔۔ سرگودھا والے واقعہ کا دربار بھی محمد علی قلندر کے نام پر تھا ،،، پاکستان میں جگہ جگہ اب تو کئی خود ساختہ قلندر بکثرت پائے جاتے ھیں جبکہ تاریخ میں صرف اڑھائی مس±تند قلندروں کا ھی حوالہ ملتا ھے جن میں آدھی قلندری حضرت رابعہ بصری کی ھے اور باقی دو میں حضرت سخی شہباز قلندر اور بو علی قلندر شامل ھیں۔ ان تینوں قلندروں نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ وہ وحدانیت کے سچے پجاری تھے جو کسی بھی انسانی یا دنیاوی چیز کا جوڑا برداشت ھی نہیں کرتے تھے ان کا ماننا تھا کہ خدا ایک ھے اور یہی وحدانیت ھے ، جس میں کسی جوڑے کی گنجائش ھی نہیں ھے۔ بنیادی طور پر قلندری قلب کے بیدار ھونے کا نام ھے جس میں انسان زمان و مکان کی گرفت سے آزاد ھو کر مسخر کائنات کے مقام پر فائض ھو چکا ھوتا ھے۔
سرگودھا واقعہ کے مرنے والوں میں صاحب مزار قلندر کا ایک بیٹا بھی شامل تھا ، یعنی مزار والے قلندر شادی شدہ بھی تھے اور قلندر ھونے کا دعویٰ بھی تھا۔۔۔ کچھ ایسے ہی پاکستان میں جعلی روحانیت کی لاکھوں چھوٹی بڑی دوکانیں ، چھوٹے بڑے درباروں ، درگاھوں اور گدیوں کی شکل میں نسل در نسل موجود ھیں جن میں آئے روز اضافہ ہی ھوتا چلا جا رھا ھے ، جن کی اکثریت روحانی منازل سے ہٹ کر شیطانی تصورات کا گھر بن چکی ھوتی ھے ، کیونکہ روحانی مقام و منازل کی درست راھنمائی خدا کی ذات اس کے نبییوں ، پیغمبروں اور مقام ولایت پر فائض اصل اولیاءھی کرتے ھیں۔۔۔ عام دنیا دار انسان اس مقام کو چھو بھی نہیں سکتے اور ایسے بھٹک جاتے ھیں کہ خود کو ذہنی طور پر روحانی شخصیت ھی تصور کر رھے ھوتے ہیں۔ اور ان کے ماننے والے پیروکار بھی ان کو روحانی اوتار ہی سمجھ لیتے ھیں۔۔۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ایسی ہی ایک بڑی مثال سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی بھی ہیں۔ بشری بی بی نے بھی بہت سارے ہیرے جواہرات اور بھاری مقدار میں سونا چاندی اکٹھے کر کے تورات میں بتائے گئے علوم کے مطابق اپنے طور پر عبادت گاہ تیار کر کے کئی چلے کرنے کی ناکام کوشش کی جو درست راہنمائی نہ ھونے کے باعث ا±لٹا بربادیوں کا باعث بن گئے۔ اور اتنی بڑی مقدار میں سونا چاندی ھیرے جواہرات اکٹھا کرنے کے لیے ملک بھر سے مبینہ لوٹ مار اور کرپشن کی گئی جس کی کہانیاں اب مرحلہ وار سامنے آ رہی ھیں ، عمران خان بھی شاید اس لیے ناجائز ذرائع کی اس لوٹ مار کو کرپشن تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ موسی علیہ السلام کی عبادت گاہ کا سونا چاندی ہیرے جوہرات بھی چڑھاووں سے حاصل کئے گئے تھے اور بشری بی بی نے بھی چڑھاوے ھی وصول کئے ھیں ، عمران خان خود کو روحانی اوتار سے بھی کچھ اوپر تصور کر بیٹھے کیونکہ چلوں کی ملکہ تو ان کی منکوحہ بن چکی تھی۔ البتہ اتنا کچھ سامنے آ جانے کے بعد بھی اس ساری جادوگری کے سحر کا اب تک یہ عالم ھے کہ ملک میں عمران خان اور بشری بی بی کے ماننے والے اب بھی یہ تصور کر رھے ھیں کہ ،، ابھی کہیں سے کوئی جادو ھو گا عمران خان دوبارہ اقتدار میں آ جائے گا اور وہ سارے پھر سے ناچ گانوں پر راج کریں گے۔۔۔

ای پیپر دی نیشن