پاکپتن سے کالعدم ٹی ٹی پی کا کمانڈر گرفتار۔
خدا جانے یہ درود والے ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ درود والوں کے شہروں اور دیہات میں بارود والوں کو بھی سینگ سمانے کا موقع ملنے لگا ہے۔ خدا بخشے پیر پگاڑہ کو جو بڑے مزے سے کہتے تھے کہ بھائی ہم درود والے ہیں۔ ہمارے ساتھ وہی ملیں گے جو درود والے ہیں۔ بارود والوں کا ہم سے کیا کام۔ اب اگر وہ زندہ ہوتے تو ان بارود والوں کی کارروائیوں پر رنجیدہ ہوتے ،آنسو بہاتے۔ پاکپتن ایک ایسی ذات گرامی کی وجہ سے مشہور ہے جو درود والوں کے لیے ہی قابل احترام نہیں بلکہ کروڑوں دلوں میں ان کا راج ہے۔ دہلی تا اجمیر لاہور تا پاکپتن، بابافریدالدین گنج شکر کا نام سنتے ہی زبانوں میں شرینی گھل سی جاتی ہے۔ ان کی بدولت یہ شہر امن و محبت کا گہوارہ بنا۔ اب گزشتہ روز وہاں سے تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کا ایک کمانڈر گرفتار ہوا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بارود والے وہاں بھی نقب لگا ئے ، پنجہ جمائے بیٹھے ہیں۔ صرف خیبر پی کے اور بلوچستان ہی نہیں پنجاب اور سندھ میں بھی ان کوسہولت کار دستیاب ہیں۔ جو ظاہر ہے مقامی لوگ ہی ہوں گے۔
گزشتہ روز جو چار بارود والے دہشت گرد لاہور، بہاولپور، ساہیوال اور راولپنڈی سے پکڑے گئے۔ ان سے اچھا خاصہ گولہ بارود اور اسلحہ بھی ملا۔ یہ کوئی باڑہ کے محلے نہیں جہاں سے یہ پٹاخے ملے۔ یہ پنجاب کے بڑے بڑے شہر ہیں جہاں ہزاروں پولیس والے و دیگر ادارے دن رات چوکس رہتے ہیں۔ ان کی آنیاں جانیاں ہمہ وقت نظر بھی آتی ہیں۔ اس کے باوجود دہشت گردوں کا اطمینان سے ان بڑے شہروں میں رہنا بہرحال اچنبھے کی بات ہے۔ اس بارے میں ہمارے شہروں کی سکیورٹی انتظامیہ کو ضرور سوچنا چاہیے اور ان کے سہولت کاروں کو ٹانگنا چاہیے۔
٭....٭....٭
تحریک استحکام پاکستان کا گنّا 425 روپے فی من خریدنے کا اعلان۔
یہ ہوتی ہے وہ خدمت خلق جو الیکشن سے قبل ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو یاد آتی ہے۔ مگر 99 فیصد یہ خدمت خلق صرف زبانی دعوﺅں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ عملی طور پر آج تک کوئی ایسا کام نہیں ہوا جو ثابت کرسکے کہ فلاں سیاسی جماعت نے اپنے دور حکومت اپنے دعوﺅں کو عملی جامہ پہنایا۔ اب ہماری نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ نے گزشتہ روز ایک ایسا قدم اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ جو شوگر ملوں کی سابقہ روش کے خلاف ہے۔ اس وقت جب گنے کی فصل تیار ہو کر شوگر ملز تک جانے والی ہے۔ کسانوں اور کاشتکاروں کو ان کی محنت کا صلہ ملنے والاہے۔ جہانگیر ترین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 425 روپے فی من گنا خریدیں گے۔ یہ ریٹ حکومت کی طرف سے مقررہ کردہ 400 روپے من سے 25 روپے فی من زیادہ ہے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو یہ صرف سیاسی بیان نہ ہو ، ورنہ شوگر ملز والے نت نئے بہانے کرکے گنے کے کاشتکاروں کو جی بھر کر لوٹتے ہیں۔
سرکاری ریٹ سے بھی بہت کم قیمت پر گناہ خریدتے ہیں۔ اس میں بھی طرح طرح کے مین میخ نکالتے ہیں۔ شوگر ملز کے پاس گنے سے لدی ٹرالیوں پر بیٹھا کاشتکار تنگ آ کر بالآخر ان ساہو کاروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور کم قیمت پر گنا فروخت کرتا ہے۔ جس کو تولتے ہوئے بھی ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ اب استحکام پاکستان پارٹی والے کیا ایسا کر سکیں گے۔ اس لئے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ بھی کوئی انتخابی دعویٰ ہی نہ ہو۔ حکومت بھی ازخود اپنے مقررہ کردہ ریٹ پر گنے کی خریداری یقینی بنا کر مجبور کاشتکاروں کے دل جیت سکتی ہے ذرا کوشش تو کر لے اس میں ہرج ہی کیا ہے...
٭....٭....٭
ہمارا تیجاس ناکام ، پاکستانی تھنڈر بہترین لڑاکا طیارہ ہے، بھارت کا اعتراف
ابھی تو بھارت والوں کو اپنے خلائی راکٹ ”چندریان“ کے ٹھس ہو جانے پر خون کے آنسو بہانے ہیں۔ وہ اپنے خلائی راکٹ کے چاند پر پہنچتے ہی کام بند کرنے کے صدمے سے دو چار ہیں۔ شکر ہے کوئی پاکستانی راکٹ ابھی تک چاند کی سطح پر لینڈنگ نہیں کر سکا یعنی پہنچا نہیں۔ کیونکہ پاکستان نے ابھی تک ایسا کوئی، کام کرنے کا سوچا ہی نہیں۔ورنہ بھارت نے الزام لگانا تھا کہ ”چندریان“ کی ناکامی یا خرابی میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔ ویسے بھی وہ ہر الٹے سیدھے کام کا الزام پاکستان پر ہی تھوپتا ہے۔ یہ اس کی پرانی عادت ہے۔ اگر کوئی کبوتر یا غبارہ ہی اڑ کر سرحد پار جائے تو پورے بھارت میں یوں تھرتھلی مچ جاتی ہے گویا پاکستان کی طرف سے یہ ایٹمی اسلحہ سے لیس کرکے نہ بھیجا گیا ہو۔ اب بھارتی فضائیہ کے افسران نے کھل کر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کا تیار کردہ لڑاکا طیارہ”تیجاس“ ان کی توقعات پر پورا نہیں اترا اور ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ پاکستان کا ”تھنڈر“ ایک بہترین لڑاکا طیارہ ثابت ہوا ہے۔ اور یہ ایک حقیقت بھی ہے۔ جبھی تو کئی ممالک نے پاکستانی”تھنڈر“ کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی اور کئی نے یہ طیارے خریدے بھی ہیں۔ عالمی مقابلوں اور نمائشوں میں اس طیارے کی صلاحیتوں کی دھوم ہے۔ اب پہلےہی دیکھ لیں پاکستانی میراج طیاوں نے بھارتی مگ طیاروں کی بولتی بند کررکھی تھی۔ انہیں بھارتی طنز سے چلتا پھرتا شمشان کہتے ہیں۔اب بھارت فرانس سے رافیل طیارے خریدرہا ہے تاکہ پاکستانی ایف سولہ کا مقابلہ کر سکے۔ مگر سب جانتے ہیں یہ چیل اور باز کا مقابلہ ہے۔ اب تھنڈر اور تیجاس کا موازنہ ویسے ہی ہے جیسے میراج اور مگ کا تھا۔
٭....٭....٭
چیف جسٹس کا مقدمات کی طوالت پر 10 لاکھ روپے جرمانہ۔
اب اگر ایسا سب کیسوں کے حوالے سے ہونا شروع ہو جائے تو بڑے بڑے کیس مہینوں میں مکمل ہو سکتے ہیں۔ یہ عذر لنگ کہ کبھی وکیل دستیاب نہیں۔ کبھی مدعی موجود نہیں‘ کبھی کوئی بیمار ہے‘ کبھی کوئی ملک سے باہر ہے یا شہر سے باہر ہے۔ کا بہانہ کرنے والوں کو اب ٹھوک بجا کر 10 لاکھ روپے جرمانے کا پروانہ ہاتھ میں تھمانے سے کم از کم خوامخواہ مہینوں اور اکثر کیسوں میں سالوں تک شنوائی کی ہی نوبت نہیں آتی۔ وکلا حضرات مدعیوں کے ساتھ مل کر بلی چوہے کا کھیل کھیلتے ہیں اور مقدمات لٹک جاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز ایک ایسے ہی کیس میں جو زمین کی ملکیت کے حوالے سے تھا‘ درخواست گزار کو جان بوجھ کر کیس لٹکائے رکھنے پر 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔ چیف جسٹس نے بجا کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکےلوگ اصل وارثوں کو برسوں اذیت کی سولی پر لٹکائے رکھتے ہیں۔ یہ اراضی کی ملکیت کا کیس بھی صرف جی ہاں صرف 14 سال سے جان بوجھ کر تاخیری ہتھکنڈے استعمال کرکے التوا میں رکھا جا رہا تھا۔ امید ہے اب مدعی کو ٹھنڈ پڑ گئی ہوگی۔ اب خدا کرے تمام جج صاحبان بھی ایک مقررہ حد سے زیادہ التوائ والے کیسوں میں یہی قدرت کی بے آواز لاٹھی والا فارمولا استعمال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو بھاری جرمانے کریں جو جان بوجھ کر دوسروں کا حصہ غصب کرتے ہیں یا انہیں تاخیری حربے استعمال کرکے اذیتیں دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہونے لگے تو خودبخود لوگ مقدمات کا جلد فیصلہ کرانے کی کوشش کریں گے۔ اس سے البتہ وکیلوں کے روزگار پر فرق پڑ سکتا ہے۔
اتوار ‘ 2 7 ربیع الثانی 1445ھ ‘ 12 نومبر 2023ئ
Nov 12, 2023