وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے سمارٹ لاک ڈاون ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ بارش کی وجہ سے ائیر کوالٹی میں بہتری اور فضائی آلودگی میں کمی نوٹ گئی ہے۔ ماہرین اور محکمہ ماحولیات کی مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ (11 نومبر ) کو مارکیٹیں کھلی رہیں گی اور ریسٹورنٹ بھی 6 بجے سے کھل جائیں گے۔ لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ پر عملدرامد کرانے کیلئے پولیس نے کریک ڈاﺅن شروع کر دیا تھا۔ مزاحمت پر ایک دکاندار کو حراست میں لیا گیا۔ محسن نقوی نے بعض علاقوں میں مارکیٹیں اور دکانیں زبردستی بند کرانے کے واقعہ کا سخت نوٹس لے لیا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ سموگ یا وبائی امراض کے پھوٹنے پر انتظامیہ کا سارا زور سکول اور مارکیٹیں بند کرانے پر ہوتا ہے۔ بے شک موسمیاتی تبدیلی کے بداثرات سب سے زیادہ پاکستان بالخصوص اسکے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور پر مرتب ہو رہے ہیں۔ ان سے بچاﺅکیلئے مارکیٹیں بازار اور سکول وغیرہ بند کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے‘ بہتر ہے کہ عوام الناس کو احتیاطی تدابیر کا پابند کرکے کاروباری معاملات کو چلنے دیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والے کیخلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ پاکستان معاشی طور پر پہلے ہی انتہائی کمزور ہے‘ جبکہ مہنگائی کی وجہ سے کاروباری مندا بھی عروج پر ہے‘ ایسے میں تاجروں کو مارکیٹیں اور بازار بند کرنے پر مجبور کرنا پاکستان کی معیشت کو مزید ڈبونے کے مترادف ہے۔ اس اقدام سے تاجر برادری کی طرف سے انتظامیہ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو انتشار کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ فضائی آلودگی کے محرکات کا سدباب کیا جائے۔ فصلوں کی باقیات جلانے‘ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کیخلاف کارروائی عمل میں لاکر اس آلودگی کو کم کیا جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان کا موسم پل بھر میں تبدیل ہو جاتا ہے‘ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ اسکے بداثرات سے بچنے کیلئے کاروبار زندگی کو مفلوج کر دیا جائے۔ ایک طرف حکومت معیشت کی بہتری کیلئے کوشاں ہے‘ دوسری جانب آلودگی کے باعث کاروبار بند کئے جا رہے ہیں جس کا موجودہ حالات میں پاکستان کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں انتظامیہ کو بازار اور مارکیٹیں بند کرنے کی پالیسی پر فوری نظرثانی کرنی چاہیے۔