ملک میں گزشتہ 6 سال کے دوران روا رکھی گئی سیاسی محاذآرائی‘ ریاستی اداروں پر چڑھائی اور گالی گلوچ کے کلچر نے سیاسی اخلاقیات کو ہی نہیں‘ اقتصادی استحکام کو بھی تباہی کی جانب دھکیلا جبکہ ملک میں جمہوریت کی بقاءو استحکام کے حوالے سے پیدا ہونیوالی غیریقینی کی فضا میں ملک کے بدخواہوں اور اسکی سلامتی کے درپے ہمارے مکار دشمن بھارت کو بھی دہشت گردی کے ذریعے ملک میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کو مزید آگے بڑھانے کا موقع ملا۔ بلیم گیم کی اسی سیاست میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو بھی ہماری معیشت پر کاٹھی ڈالنے کا موقع ملا جس کے ساتھ پی ٹی آئی کے دور میں کئے گئے بیل آﺅٹ پیکیج کے معاہدے پر سیاسی مفادات کے تحت عملدرآمد سے گریز کرکے اسے پاکستان سے بدگمان کرنے کا راستہ نکالا گیا اور اس بدعہدی کا ملبہ پی ٹی آئی کے بعد اقتدار میں آنیوالے اتحادی حکمرانوں کو اٹھانا پڑا جنہوں نے آئی ایم ایف کے معطل کئے گئے قرض پروگرام کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ایڑیاں اور ناک رگڑنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی اور اسکی خوشنودی کی خاطر راندہ درگاہ عوام کو مہنگائی کے سونامیوں کے آگے ڈال کر انہیں قبرستان کی جانب دھکیلنے کی بھی نادر مثالیں قائم کیں۔ کورونا وائرس اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے مفلوج ہوئی قومی معیشت کیلئے سیاسی عدم استحکام اور ادارہ جاتی محاذآرائی کے جھٹکے مزید مضرت رساں ثابت ہوئے اور پانچ ماہ پہلے تک ہماری معیشت کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں دنیا بھر میں پراپیگنڈا ہورہا تھا۔
ملک کی معیشت کو اس نہج تک پہنچانے میں اپنے اپنے مفادات میں لپٹی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتوں کا بھی عمل دخل تھا جبکہ پروان چڑھائی گئی منافرت کی فضا ملک کے دفاع و استحکام کے ضامن ریاستی ادارے کیخلاف 9 مئی والے سانحہ کی نوبت لے آئی جو درحقیقت پاکستان کے اندرونی طور پر کمزور ہونے کا دشمن کو دیا گیا پیغام تھا۔ محاذآرائی‘ عدم استحکام‘ انتشار اور منافرت کی فروغ پاتی اس فضا میں سنیارٹی کی بنیاد پر ملک کی عسکری قیادت کی خوش اسلوبی کے ساتھ تبدیلی رونما ہوئی تو آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک کے دفاع کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ اس ارض وطن کو اقتصادی استحکام سے ہمکنار کرنے کا بھی عزم باندھا جس کیلئے ملک کی سول سیاسی اور عسکری قیادتوں میں ایک صفحے والی یکجہتی کی فضا پیدا ہوئی چنانچہ انتشار اور افراتفری کے ہر روٹ کاز کا بھی سدباب ہونے لگا اور پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں جستیں بھرنے والے امریکی ڈالر کے ہوش بھی ٹھکانے آنے لگے جس کی سواتین سو روپے تک پہنچی شرح بالآخر تین سو سے بھی نیچے آنے لگی۔
اقتصادی استحکام کی یہی پالیسیاں نگران حکومت نے بھی اختیار کیں جس کے خوشگوار اور مثبت اثرات آج قومی معیشت کے فروغ و استحکام کی صورت میں برآمد ہو رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں سٹیٹ بنک نے اکتوبر میں آنیوالی ترسیلات زر کی جو تفصیلات جاری کی ہیں‘ اسکے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اس ماہ کے دوران اڑھائی ارب ڈالر پاکستان بھجوائے ہیں۔ یہ ترسیلات زر ستمبر کے مقابلہ میں گیارہ عشاریہ پانچ فیصد زیادہ ہیں جبکہ روپے کی قدر میں بہتری آنے سے پاکستان کے قرضوں میں ازخود 1675 ارب روپے کی کمی ہوگئی ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران تین کروڑ 76 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔ کچھ ایسی ہی مثبت اور خوشگوار فضا ہماری سٹاک مارکیٹ میں بھی استوار ہوتی نظر آرہی ہے اور گزشتہ روز پاکستان سٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس پہلی بار تاریخ کی بلند ترین سطح 55391 پوائنٹس تک آگیا۔ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق کاروباری تیزی سے مارکیٹ کے سرمائے میں ایک کھرب 32 ارب روپے سے زائد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں سرمائے کا مجموعی حجم 79 کھرب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ روز پاکستان سٹاک مارکیٹ میں 64 کروڑ آٹھ لاکھ 36 ہزار حصص کے سودے ہوئے۔ اس وقت ڈالر کا نرخ اوپن مارکیٹ میں پچاس پیسے کے اضافے سے 288 روپے اور انٹرمارکیٹ میں 287 عشاریہ 03 ہے جو چار ماہ قبل کی ڈالر کی قدر سے 45 سے 50 روپے تک کم ہے۔ یہ بلاشبہ قومی معیشت کے استحکام کا خوشگوار اشارہ ہے اور ملک جیسے جیسے سیاسی استحکام کی جانب بڑھے گا‘ اس سے قومی معیشت کے استحکام کی راہ بھی ہموار ہو گی اور خوشحالی بھی عوام کا مقدر بنتی نظر آنے لگے گی۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے منصوبوں کی بنیاد پر پاکستان کیلئے استوار ہوتے اقتصادی ترقی کے راستوں کا تذکرہ کیا ہے جو بلاشبہ ہمارے اور اس پورے خطے کیلئے گیم چینجر منصوبے ہیں۔ اس سے ہماری برآمدات کیلئے علاقائی اور عالمی منڈیوں تک راستے کھلیں گے تو تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا اور قومی معیشت کے استحکام کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔ قومی معیشت کیلئے یہ ممکنہ مثبت نتائج ملک اور خطے میں امن و استحکام کے متقاضی ہیں جو بالآخر سی پیک اور بی آر آئی کے ساتھ جڑے خطے کے ممالک کی ضرورت بن جائیگا۔
ہماری قومی ترقی کے سفر کو گزشتہ تین دہائیوں سے جاری توانائی کے بحران کے باعث بھی بریک لگی ہے۔ اگر ملک میں سیاسی ترجیحات سے ہٹ کر ہائیڈل بجلی کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دی گئی ہوتی تو یقیناً ہم اس شعبے میں خودکفیل ہو جاتے اور عوام کو مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ کی اذیت سے بھی نہ گزرنا پڑتا۔ تاہم ماضی میں ڈیمز کی تعمیر پر سیاسی مفادات حاوی ہوتے رہے جس نے ہمارا ترقی کا سفر کھوٹا کردیا۔ ہم پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کو پایہ تکمیل کو پہنچا کر اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتے تھے مگر امریکی ممکنہ پابندیوں کا خوف اس منصوبے کے آڑے آگیا۔ اب نگران وزیراعظم نے وسطی ایشیاءکے راستے سے تاپی گیس منصوبہ کو بھارت کی عدم توجہی کے باوجود پایہ تکمیل کو پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے تو اس پر کام کا آغاز بھی ہوجانا چاہیے اور اسکے ساتھ ساتھ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کی تکمیل کی جانب بھی ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر پیش رفت کی جائے کیونکہ ایران نے اپنے حصے کا کام پہلے ہی مکمل کیا ہوا ہے۔ اگر ہم توانائی کے بحران سے باہر نکل آئے تو ہمارے لئے قومی معیشت کے استحکام کی منزل تک پہنچنا مزید آسان ہو جائیگا۔ ہمیں بہرحال ملک میں سب سے پہلے سیاسی استحکام لانا ہے جس کے بغیر اقتصادی استحکام کی منزل حاصل نہیں ہو سکتی۔ سیاسی استحکام کا ہماری سیاسی قیادتوں کی فہم و بصیرت پر دارومدار ہے۔ انہیں سیاست میں ذاتی مفادات سے ہٹ کر ملک اور قوم کیلئے بھی سوچنا چاہیے۔