گلزار ملک
گریٹر اقبال پارک جو ملکی ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ اس پارک کے سامنے تاریخی بادشاہی مسجد ،شاہی قلعہ ہے۔ اور بادشاہی مسجد کے باہر مفکر پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمة اللہ علیہ کا مزار ہے جنہوں نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا تھا جو حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمة اللہ علیہ کی ولولہ انگیز قیادت پر اگست 1947ء میں شرمندہ تعبیر ہوا اس پارک کے احاطہ میں مزید تین مزار اور بھی ہیں جن میں حضرت بابا سید چراغ شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت بابا سید شیر شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ ، حضرت بابا غلام حیدر سائیں المعروف کمبل والی سرکار رحمة اللہ علیہ اور جناب حفیظ جالندھری کا مزار ہے جو پاکستانی قومی ترانہ کے خالق ہیں۔ یاد رہے کہ جب گریٹر اقبال پارک منصوبے کے تحت مزار حفیظ جالندھری
کی تزئین و آرائش کی گئی اس وقت حفیظ جلندھری کے مزار کے ساتھ خوبصورت پلاٹ اور پتھر لگائے گئے اور مزار کی عمارت کو رنگ روغن کیا گیا مگر نہایت معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس وقت پورے پارک کے اندر رات کے وقت شام ہوتے ہی لائٹنگ ہو جاتی ہے مگر حفیظ جلندھری کے مزار پر کوئی کسی قسم کا ایک بھی بلب نسب نہ ہے جس کی وجہ سے اندھیرے میں آپ کا مزار دکھائی نہیں دیتا اور آج کی نسل کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ قومی ترانہ کے خالق حفیظ جلندھری کا مزار یادگار مینار پاکستان گریٹر اقبال کے احاطہ میں ہے اور رات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا یہ مزار روشنیوں کا منتظر ہے۔
ہمیں ہر سال نو نومبر کو مزار اقبال پر جانے کا موقع ملتا ہے اس دوران کچھ ادبی دوست بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں جن میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ہائی سکول جہانگیر آباد کے ہیڈ ماسٹر سجاد گل صاحب اور دیگر دوستوں میں شیخ عامر لطیف ، رانا وقاص الیاس ہوتے ہیں۔ مزار اقبال پر حاضری دینے والے دوستوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہوتا ہے۔ اس دن کی نسبت سے لاتعداد لوگوں کا ہجوم جو اقبال سے بھرپور محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ان کا جوش و جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
گریٹر اقبال پارک کی تعمیر سے پہلے ان چاروں مزارات کے آگے سے 2016 سے پہلے سڑک گزرتی تھی اور یہ چاروں مزارت سڑک کے اوپر واقع تھے تو اس وقت ان مزارات پر جانے والے عقیدت مندوں کو کسی بھی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا مگر جب سے گریٹر اقبال پارک کی تعمیر ہوئی ہے تو یہ چاروں مزارات گریٹر اقبال کے احاطہ میں آگئے ہیں جس کا نقصان ان عقیدت مندوں کو ہوا ہے کیونکہ نو نومبر کو جب اقبال ڈے ہوتا ہے تو اس وقت اقبال کے عقیدت مند مزار پر حاضری اور فاتحہ خوانی کی غرض سے جانے والوں کو گریٹر اقبال پارک کے مین گیٹ پر ہی روک لیا جاتا ہے بلکہ یہاں تک کہ صحافیوں کو بھی وہاں رکنا پڑتا ہے بہت بڑے ہجوم کو کئی کئی گھنٹے تک یہاں پولیس اہلکار روکے رکھتے ہیں مگر اس بار تو کچھ عجیب ہی ہوا کہ صبح کے وقت پولیس کی بھاری نفری نے اس وقت تک ڈیوٹی انجام دی جب تک اہم شخصیات کا وہاں پر پھولوں کی چادریں چڑھانے اور فاتحہ خوانی کا سلسلہ جاری تھا مگر جیسے ہی وہاں سے اہم شخصیات چلی گئی تو ٹی ایل پی والوں نے وہاں پر قبضہ کر لیا اور اب انہوں نے پارک کے گیٹ سے لے کر مزار اقبال تک اپنے نوجوان اہلکاروں کو کھڑا کر دیا جو ہر کسی کو اندر جانے سے روک رہے تھے بہرحال میری حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ پارک کے اندر مزارات پر جانے والے ہجوم کو نہ روکا کریں بلکہ اس راستہ کو 24 گھنٹے عقیدت مندوں اور دیگر عوام کے لیے کھلا رکھا جائے خاص کر کے نو نومبر کو یہ تمام رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیے۔