طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
اسرائیل سات اکتوبر سے غزہ پر قیامت صغری ٰڈھا رہا ہے۔اسرائیل کا ساتھ دینے کیلیے بھارتی نڑاد ہندو برطانوی وزیر اعظم رشی سونک اسلحہ سے بھرے ہوئے فوجی طیارے پر اسرائیل پہنچے۔ دنیا نے ایسا منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کسی ریاست کا وزیر اعظم اس انداز سے ہنگامی دورے پر پہنچا ہو۔ جبکہ اسرائیل انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے یہ اسے مزید نہتے مسلمانوں کے خلاف اسلحہ دینے پہنچا ہے۔ اس منظر کو فلمایا گیا تاکہ مسلمان جان لیں کہ وہ سب اکٹھے اور متحد ہو کر فلسطین کے مسلمانوں کو تباہ کرنے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ برطانیہ اور مغرب جس طرح ان ظالمانہ کاروائیوں پر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اس کی اجازت و مثال تو کسی وحشیانہ قانون میں بھی نہیں ۔ماضی قریب و بعید کی تاریخ میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی۔برطانیہ وہی ہے جس نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ بسایا۔یہ وہی ملک ہے جس نے پاکستان کی آزادی میں کشمیر کو متنازع قرار دیا تاکہ یہ چین کی زندگی بسر نہ کرے۔کبھی کشمیریوں پر مظالم کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور کبھی فلسطین کے مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلیے اسلحہ لیکر پہنچ جاتے ہیں۔ مسلم ممالک اتنا تو کر سکتے ہیں ان کے باشندوں کو ملک بدر ہی کر دیں۔ جبکہ انہوں نے مسلمانوں کو بتادیا ہے کہ جنہیں وہ گلے لگاتے ہیں وہ انسانیت کے مجرم مظلوموں کے قاتل اور فلسطین کو مٹا دینے کا عزم رکھتے ہیں۔ کہتےہیں کرنا ہے جو کر لو۔ہمارے حکمران وہ ہیں جو فارن فنڈنگ بھارت اور اسرائیل سے لیتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔مسلمان کے مقابلے میں یہودی سالے کو سپورٹ کرتے ہیں ۔دوسرے یہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں مگر مسلمان یہ ضرور جانتے ہیں کہ َدنیا سے رخصت ہونیوالے سوائے اپنے اعمالوں کے کچھ ساتھ لے کر نہیں جائیں گے ہیرے جوہرات بنگلے گاڑیاں جہاز سب یہی چھوڑ جائیں گے۔ مگر پھر بھی ہم چند ٹکوں کی خاطر اپنے مسلمانوں بھائیوں انسانوں کو کیمکل سے بنایا ہوا دودھ فروخت کرتے ہیں، کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرتے ہیں۔ جھوٹ بولتے ہیں۔ دکھاوے کی عبادات کرتے ہیں،انصاف کو بیجتے ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ اس وقت فلسطین میں خون کی ہولی اسرائیل کھیل رہا ہے۔ زندہ انسانوں کو زمین کھود کر ہاتھ باندھ کر پہلے گراتے ہیں پھر ان پر گولیاں برساتے ہیں۔ کوئی ان کو روکنے والے ہاتھ نہیں ۔ اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی انکھیں کان بند ہیں ہونٹ سلے ہوئے ہیں۔ انصاف کی عدالتوں پر تالے ہیں۔ اس لئے کہ یہ سب تنظیمیں ان کے تابع کام کرتی ہیں ۔دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہے۔ جس کو یہ قانون دکھائی نہیں دیتا وہ غزہ کا علاقہ جا کے دیکھ لے۔ دن رات غزہ کی ابادی پر بم برسا? جا رہے ہیں۔ پھر بھی دنیا کے تمام ترقی یافتہ انسانی حقوق کے چمپین علمبردار مملک ان کا ساتھ دے رہے ۔ ان کے ممالک میں جلوس نکل رہے ہیں اور یہ ممالک پھر بھی اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے جہاں نہ اسپتال محفوظ ہیں نہ یو این کی پناہ گاہیں محفوظ ہیں نہ سکول محفوظ ہیں نہ کوئی عبادت گائیں محفوظ ہیں۔نہ عورتیں نہ بچے نہ بوڑھے محفوظ ہیں۔ غزہ میں پینے کا پانی نہیں مگر انسانی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ زمین سرخ ہے مگر دنیا کے مسلمان سوا ئے گالیاں ، بد دعائیں دینے کے کچھ نہیں کر رہے۔ یہودیوں کا ہر شعبہ زندگی پر ساری دنیا پر کنٹرول ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ نوبل انعام ان کے حصے میں ہیں ۔ دنیاکی ہر فیلڈ میں یہ یہودی چھائے ہوئے ہیں۔ میڈیا، فلم انڈسٹری، سیاست ،آ ئی ٹی معاشی اداروں پر ان کا کنٹرول ہے۔ اس وجہ سے یہ دوسرے ممالک کو چلاتے بھی ہیں۔ حکومتوں کو بناتے بھی ہیں،یہ دنیا کے کنگ میکر ہیں ۔اگر ہم اج مسلم ممالک اپنے مذہب اسلام پر عمل کررہے ہوتے زندگیاں گزار رہے ہوتے تو جو کچھ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ظلم ہو رہے ہیں وہ نہ دیکھ رہے ہوتے۔لگتا یہی ہے مسلم ممالک کے باشندے نام کے ہی مسلمان ہیں۔ جس کی وجہ سے اسرائیل کے مظالم فلسطین غزہ پر اور بھارت کے مظالم کشمیریوں پرجاری ہیں ۔ ماضی میں دوہزار چھ میں بھی لبنان پر ایسے ہی اسرائیل مظالم کرچکا ہے۔اس وقت بھی اقوام متحدہ کے کمپاونڈ کے پناہ گزینوں پر وحشیانہ بمباری کی گئی تھی ۔اس وقت بھی کوئی جنگی جرائم اس پر نہیں لگے تھے۔ کل بھی اسرائیل ویسا ہی ظالم تھا آج بھی مسلمان ویسے ہی مظلوم ہیں ۔ہم نے مشکل وقت میں ہمیشہ غیبی مدد کی امید رکھی ہے جب کہ کہا جاتا ہے کہ غیبی مدد نہ کبھی اسرائیل کا قیام روکنے کے لئے آئی، نہ بابری مسجد کے وقت آئی، نہ عراق اور شام کے وقت آئی، نہ کشمیر کو ازاد کرانے کے لئے آء ۔یاد رہے کہ غیبی مدد ماضی میں آتی رہی ہے جیسے جنگ بدر میں آئی۔ جب 1000 کے مقابلے میں 313 میدانِ جنگ میں مسلمان ا?ترے تھے۔ غیبی مدد جنگ خندق میں آئی جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے محبوب نے پیٹ پر 2 پتھر باندھے اور خود خندق کھودی اور میدانِ جنگ میں ا?ترے۔جب کہ آج کا مسلمان بددعائیں کر کے غیبی مدد کے منتظر ہے۔ ہم مسلمان سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ذمہ کر کے غیبی مدد کے منتظر رہتے ہیں۔ اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے سے ڈرتے اور کتراتے ہوئے آسمانوں سے فرشتوں کے نازل ہو کر مسلمانوں کی غیبی مدد کے منتظر رہتے ہیں ۔ایسی صورت میں غیبی مدد نہیں آتی۔ بھوک افلاس، زلزلے اور سیلاب ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، کم تولنا، ملاوٹ کی شکل میں ہم پر یہ عزاب نازل ہیں۔ اسرائیل کے مظالم پر گالیاں بددعائیں دیتے ہیں۔ ہماری دعائیں ہمارے کرتوتوں کی وجہ سے بےاثر ہیں۔ کہا جاتا ہے ابراہیم بن ادہم بصرہ کے بازار سے گزرے تو لوگ ان کے اردگرد اکٹھے ہو گئے اور کہنے لگے: حضرت! کیا وجہ ہے کہ ہم دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں؟ !فرمایا: کیونکہ تمھاری دس عادتوں کی وجہ سے تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوتیں ۔پوچھا وہ دس عادات کون سی ہیں؟ کہا 1۔ تم نے اللہ کو پہچان تو لیا مگر اس کا حق ادا نہیں کرتے۔2۔ تم دعوے کرتے ہوکہ تمھیں رسول اللہ ? سے محبت ہے۔ مگر اس کے باوجود تم نے ان کے راستے کو چھوڑ دیا ہے3۔ تم نے قرآن تو پڑھا مگر اس پر عمل نہیں کیا4۔ تم اللہ کی نعمتیں کھاتے ہو مگر ان کا شکر ادا نہیں کرتے! 5۔ تم کہتے تو ہو کہ شیطان تمھارا دشمن ہے، مگر بات بھی تم اسی کی مانتے ہو!.6۔ تم یہ مانتے ہو کہ جنت بر حق ہے مگر اس کے لیے عمل کرتے نہیں!7۔ تم تسلیم کرتے ہو کہ دوزخ بر حق ہے مگر اس سے بچنے کی تگ ودو کرتے نہیں! 8۔ موت کو ایک حقیقت سمجھتے ہو مگر اس کی تیاری نہیں کرتے! 9۔ نیند سے بیدار ہوتے ہو تو لوگوں کی عیب جوئی کرنے لگتے ہو اور اپنے عیب بھول جاتے ہو!10۔ تم اپنے ہاتھوں سے مردے دفن کرتے ہو مگر اس سے عبرت نہیں پکڑتے!لگتا ہے ہر مسلمان کے اندر یہ دس عادات موجود ہیں جن کی وجہ سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ ہے باقی سارے اسلامک مملک ازاد ہیں لیکن اب اسرائیل کی موجودہ جنگ سے سمجھیں ہیں کہ فلسطین ازاد ہے باقی اسلامک ممالک پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ کہا تو یہ بھی جا رہا ہے غزہ پر قبضہ کرنے کے لیے حماس سے یہ حملہ کروایا گیا۔ جس طرح عراق کو کمزور کرنے کے لیے عراق کا کویت پر قبضہ کروایا گیا تھا پھر اسے جواز بنا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ جسے سب نے دیکھا بھی مگر مسلم ممالک سبق سیکھتے نہیں ۔ کیا حماس کو نہیں معلوم تھا کہ اس کے بعد فلسطین اور غزہ کے رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو گا؟کاش ہوش سے کام لیتے۔ ہم دماغ کا استعمال کرتے نہیں قران کو سمجھ کر پڑھتے نہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا !
طاقوں میں سجایا جاتا ہے
آنکھوں سے لگایا جاتا ہے
تعویذ بنایا جاتا ہے
دھودھو کے پلایا جاتا ہے
.یاد رکھیں!! قرآن کو پڑھنے سے سمجھنے سے اور عمل کرنے سے ہی بہتری آ سکتی ہے۔