حرف ناتمام....زاہد نوید
zahidnaveed@hotmail.com
محترم قارئین : کالم کاآغاز میں نثار ناسک کا یہ شعر
قتل طفلاں کی منادی ہو گئی ہے شہر میں
ماں مجھے بھی صورت موسیٰؑ بہادے نہر میں
افسوس صد افسوس اسی موسیٰ کی امت آج غزہ کے معصوم بچوں کے خون کی پیاسی ہو گئی
لرزتے کانپتے پچوں کی چیخیں یاد آتی ہیں
کسی بھی کام میں اب جی نہیں لگتا
عجب منحوس سے دن ہیں۔ میں اور میرے جیسے کروڑوں بے بس لوگ رونے اور بین کرنے کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔اگر یہ جنگ دو فوجوں کے مابین ہوتی تو ہم کہتے لڑنے دو فوج کس لئے ہوتی ہے۔مگر یہ فوجیں تو ان معصوم ناسمجھ نادان بچوں کے ساتھ لڑ. رہی ہیں جو ابھی ماوں کی گود سے اترے نہیں جو نہ حماس کے جزبہ اسلامی کوسلام پیش کرنے کے قابل ہیں نااسرا ئیل سے انکی کوءجان پہچان ہے۔ ان میں سے بےشمار ایسے ہیں جو بولنابھی نہیں جانتے۔اکتوبر میں خبر گرم تھی کہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے ۔پھر سات اکتوبر کا منحوس دن جس نے غزہ کو معصوم بچوں کی قتل گاہ بنا دیا ۔ حماس والے اپنے میزائلوں کے ساتھ اسرائیل پہ چڑھ دوڑے ۔ میرا مسئلہ یہ نہیں کہ حماس نے ایسا کیوں کیا ۔ میرا سوال یہ ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کرنے کی بجائے حماس والے اسرائیلی گھروں میں کیوں جاگھسے۔ ایسا کرنے سے پہلے کیا وہ غزہ کے گھروں کی حفاظت کا بندوبست کر چکے تھے ۔
کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ دشمن بھی اسی طرح کی حرکت کرے گا اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ وہ تیار تھے کہ اسرائیلی جہاز ائیں اور غزہ پر بمباری کریں اور بچوں کو شہید کر دیں گھروں کو برباد کر دیں ابادیاں مسمار کر دیں۔
خیال ان کا ستاتا ہے بار بار نوید
رہیں نہ جن کی چھتیں ان گھروں پہ کیا گزری
مگر جنگجوو¿ں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے
آج اہل غزہ کی زندگی کی کشتی ڈوب رہی ہے۔مگر دنیا کا نظام چلانے والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ظالم اتنا بھی نہیں کرتے کہ ایک ماہ ہو گیا ہے چلو جنگ ہی روکتے ہیں ۔الٹا جہاز بارود سے بھر کر لا رہے ہیں ان کی اسلحساز فیکٹریاں دن رات کام کر رہی غزہ کے آس پاس کے پڑوسی جشن منا رہے ہیں ۔ جوذرا دور ہیں وہ ورلڈ کپ میچ دیکھ رہے ہیں اہل دل حکمران یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہاں ہاں جو کچھ ہو رہا ہے بہت برا ہو رہا ہے ۔زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔اگر کچھ ہے تو جلتی اگ
میں سسکتے ہوئے جلتے ہوئے راکھ ہوتے ہوئے معصوم بچے ہیں اوربے کس عورتیں ۔ حماس والو اتنا تو بتا دو کہ میزائل اکٹھے کرنے کے علاوہ تم نے اپنے دشمن کو شکست دینے کے لئے اور کیا تیاری کی۔ کتنے ملکوں کو اپنے ساتھ ملایا ؟کس کس نے تمہارا ساتھ دینے کی حامی بھری تھی ذرا یہ تو بتا دو ۔کیونکہ میدان جنگ میں تو تم اکیلے ہی نظر ارہے ہو ۔باقی تو سب تماشائی ہیں ....لوگوں کے لیے یہ تماشہ تم نے کیوں لگایا ۔جو لوگ تمہاری تعریفیں کر رہے ہیں ان کے بچے تو صحیح سلامت ہیں ۔اللہ سب کے بچوں کو سلامت رکھے مگر تم نے اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ان کوخوں خوار درندوں کے حوالے کر دیا ۔اب وہ ان کا لہو چاٹ رہے ہیں اور اور تم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔صرف اتنا بتا دو کہ تمہیں اس جنگ سے ملے گا کیا۔ زمین کا ایک ٹکڑا؟کیا اس کی خاطر سینکڑوں بچوں کو اذیت ناک موت کے حوالے کردیا۔ واہ رے آپ کی سیاست اوراصول جنگ۔
اب نسیم حجازی کے ناولوں کے ہیرو بنے پھرتے ہو۔ جب میں اپنے بچوں کو اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔تو مجھے مقتل غزہ کے بچے خون رلاتے ہیںاور پھر مجھے شدید غصہ آتا ہے مگر کیا کر سکتا ہوں قہر درویش بر جان درویش۔ خود دل سے دل کی بات کہی اور رو لیے۔ یہ حالت صرف میری نہیں دنیا کے بر اعظموں پر بسنے والے ان تمام لوگوں کی ہے جو اولاد والے ہیں یاجو خود انسان ہیں نتن یاہو اور بائڈن جیسے درندہ صفت نہیں یہ وہ نام نہاد ورلڈ لیڈر ہیں جنہوں نے ملکوں کے مابین جنگ کو ایک نئے اور تباہ کن راہ دکھا دی ہے۔ جو ظلم انہوں نے غزہ میں کیا ہے اس نے دنیا بھر کے بچوں کوغیر محفوظ کر دیا ہے۔ اب اگر کبھی جنگ ہوتی ہے تو امن دشمن ایک دوسرے کے بچوں اور عورتوں کوماریں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ غزہ میں ہونے والا ظلم اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ مگر پہلی بار یہ ایسا نہیں ہوا برسوں پہلے صابرہ اور شتیلہ کے کیمپوں پر ہونے والی بمباری مجھے یاد ہے جب ایک صحافی ایک بچے کی جلی ہوئی لاش دکھا کر جو کہ لوتھڑا بن چکی تھی سوال کر رہاتھا” کیا یہ انصاف ہے“ دنیا کا یہ نظام بھی کیا ہے جہاں ایک آدمی کے قاتل کے لیے تو سزائے موت ہے مگر لاکھوں انسانوں کے قاتل نیا سوٹ پہن کراپنے دربار میں بیٹھ کرنئے قتل ناموں پرشاہی مہرلگاتے ہیں اور تاریخ انہیں بہادر سپاہی جانباز مجاہد شیر دل جرنیل منصف و عادل حکمران۔ وغیرہ وغیرہ کے القاب وآداب سے نوازتی ہے
ہے موج میں اک قلزم خوں کاش یہی ہو
اتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیامرے. . آگے