حقائق…زین الاسلام
forzainulislam@gmail.com
دنیا میں بڑھتی آبادی کے باعث صحت کے نظام پر بڑھتا دباو¿ ایک پیچیدہ چیلنج کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ چیلنج پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مزید گھمبیر شکل اختیار کرلیتا ہے، جہاں جمہوری و انتظامی ادارے کمزور اور معاشرے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں، اور جہاں صحت عامہ حکومتوں کی اولین ترجیحات میں سے نہیں ہے۔سائنسی تحقیقات اور اعداد شمار اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ بڑھتی آبادی سے صحت عامہ کے لیے دستیاب وسائل کم ہوتے جات ہیں، خاص طور پر زچگی کے دوران خاتون اور بچے کی کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں infant mortality rate یعنی پیدا ہونے والے بچوں کے موت کے منہ میں چلے جانے کی شرح 55.77 ہے۔ یعنی پیدا ہونے والے ہر ہزار بچوں میں سے 55 سے زائد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ ایسے معاشرے جہاں صحت کا جدید نظام موجود ہے ان کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ وسائل میں کمی اور صحت کے نظام پر دباو¿ بڑھنے سے یہ شرح بڑھنے کا خدشہ ہے۔تحقیق کے مطابق پاکستان کو صحت عامہ کے نظام میں بہتری کے لیے آبادی پر قابو پانے کی ضرورت ہے، تاہم ماہرین کہتے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیے بھی صحت کا بہترین نظام درکار ہے۔ کیوںکہ آبادی پر قابو پانے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی کی آگاہی اور اقدامات درکار ہیں، جن کا وجود بہتر صحت عامہ کے نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس موقع پر آبادی کا کنٹرول اور صحت کا نظام دونوں ایک دوسرے پر منحصر دکھائی دیتے ہیں۔یا دوہرا چکر یا circular dynamicجامع صحت کی دیکھ بھال کی پالیسیوں کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے، جو زچگی کی صحت، خواتین کی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی اور وسیع پیمانے پر آگاہی کی مہم پر توجہ کا متقاضی ہے۔ پاکستان میں صحت کے نظام کو جو مسائل درپیش ہیں ان میں ہسپتالوں میں آںے والے مریضوں کی بڑھتی شرح، ناکافی افرادی قوت اور سہولیات، جدید ٹیسٹنگ کا نظام غریب اور متوسط طبقہ کی آبادی کی پہنچ سے دور ہونا اور مہنگی ادویات جیسے امور کا دخل ہے۔ جبکہ مرکزی دھارے کے شہروں کے علاوہ قصبوں اور دیہاتوں میں ناکافی ڈاکٹر بھی ایک گہرا مسئلہ ہیں۔ ملک کے شہری علاقوں میں 10,000 افراد کے لیے محض 14.5 ڈاکٹر دستیاب ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 3.6 ہے۔ جس کے باعث قصبوں اور دیہاتوں کے مریضوں کو کسی بھی حالت میں بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شہروں میں قائم اسپتالوں اور طبی مراکز پر دباو¿ روز بہ روز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2023 تک کے اعداد و شمار کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں فی 1,000 مریضوں کے لیے 0.64 بستر دستیاب ہیں۔ جبکہ پاکستان کے پبلک ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر میں فی 1000 مریضوں پر صرف 0.46 نرسیں ہیں۔ مریضوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے بہتر اور ہنر مند طبی افرادی قوت کی دستیابی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ صحت عامہ سے ج?ڑے مسائل حل کرنے کے لیے یہ بات بھی اہم ہے کہ بڑھتی آبادی پر نہ صرف قابو پایا جائے بلکہ معاشرے کے باصلاحیت اور قابل افراد کے ایک مخصوص حصے کو ہیلتھ کیئر کے نظام سے وابستہ کرنے کے لیے عالمی معیارات کے مطابق تعلیم و تربیت دی جائیں اور ان کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کر کے ان کو اس قدر مراعات بھی دی جائیں کہ وہ دل جمعی کے ساتھ تمام طبی پروٹوکولز اور طبی شعبہ کی اخلاقی حدوں کے مطابق مریضوں کے لیے خدمات انجام دے سکیں۔ بیماریوں سے بچاو¿ کے لیے آگاہی اور حفاظتی اقدامات کا فقدان بھی ملک میں امراض کے پھیلاو¿ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے دور میں امراض پر قابو پانے کے لیے آگاہی اور ان سے متعلق احتیاطی تدابیر کے پیغامات کا پھیلاو¿ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سائنسی بنیادوں پر م?رتب کی گئی اسٹرٹیجک کمیونیکیشن کے تحت صحت عامہ سے متعلق سرکاری و غیر سرکاری سطح پر پبلک سروس میسجز اور communication campaignsشروع کی جائیں تا کہ شہریوں میں بیماریوں اور ان سے بچاو¿ سے متعلق زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا ہو اور صحت کے نظام پر دباو¿ کسی حد تک کم ہو۔ ماہرین کے مطابق ایسی ہی پبلک ہیلتھ کمیونیکیشن کیمپینز کے ذریعے آبادی پر قابو پانے کے لیے بھی آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے۔