میں کچھ نہیں فرماتی لوگ باتیں گھڑ لیتے ہیں

ڈاکٹرعارفہ صبح خان              
تجا ہلِ عا رفانہ      
 میں نے ادب میں سب سے پہلے یہ اعتراض اٹھایا تھا کہ لوگ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے دوسروں کے اقوال کا سہارا لیتے ہیں جس سے وہ اپنی بات کو معتبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر آپ کا دماغ خالی ہے اور زبان معیاری گفتگو سے قاصر ہے تو کیا آپ کا علم و ادب ،سیاست ثقافت مذہب اخلاقیات پر بولنا فرض ہے ۔پھر اپنی بات میں رنگ بھرنے کے لیے سقراط بقراط افلاطون ارسطونطشے شکسپئیر ایلیٹ چاسر یا میر غالب فیض اقبال شیخ سعدی رومی خلیل جبران کے آدھے ادھورے اقوال ڈال دیتے ہیں۔ساری گفتگو میں دوسروں کے الٹے سیدھے حوالے اقوال اور نظریات کسی مفکر کی طرح بیان کرتے ہیں ۔ساری گفتگو میں ان کا اپنا کوئی مطمئع نظر، اپنی سوچ اپنا نظریہ اور اپنی بات نہیں ہوتی۔ کوئی پوچھے کہ بھائی تمہاری اپنی رسائی کہاں تک ہے۔ میں نے اپنی نئی کتاب ”گنجے اور گنجیاں“ میں ایک مزاحیہ آرٹیکل” فلاں نے کہا اور فلاں نے فرمایا“ اسی موضوع پر دلچسپ انداز میں لکھا ہے اور ان مفکروں،فلاسفروں ،دانشوروں، افلاطونوں کا مضحکہ اُڑایا ہے کہ بھائی آخر سب نے فرمایا لیکن تم نے کچھ کیوں نہیں فرمایا؟؟؟ خالی دماغوں کا یہی مسئلہ ہے لیکن آج میں ایک الگ نوعیت کا سنگین مسئلہ بیان کرنے لگی ہوں۔یہ مسئلہ نہایت گھمبھیر ہے اور جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ میں آپ کو اپنے چند ذاتی تجربات بتاتی ہوں اور جانتی ہوں کہ پوری قوم کو یہ آب بیتی دی ،جگ بیتی یعنی اپنی ہی کہانی لگے گی ۔وہ خواتین جو ساری زندگی ان تھک محنت کر کے، ایثار و قربانی اور اپنی ذہانت و ریاضت سے اپنا مقام بناتی ہیں۔ شہرت اور عزت کی سیڑھیاں چڑھ کر اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہیں اور اس کے ساتھ شرم و حیا، وقار، تہذیب تمیز اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتی ہیں اور فضول یا بے مقصد باہر پی آر شپ کے چکر میں ماری ماری نہیں پھرتیں۔ ہر ایک سے دوستیاں یا تعلق نہیں بڑھاتیں یا کسی کو خود سے بے تکلف نہیں ہونے دیتیںتو ان کے لیے یہ دنیا ایک مسلسل میدانی جنگ ہے۔ میرا تعلق بھی ادب، صحافت، تعلیم اور سوشل ورک سے مسلسل رہا ہے۔ میں نے کبھی بھی کچھ پلاننگ سے نہیں کیا بلکہ جیسے قسمت نے سلوک کیا، ویسے ہی زندگی میں چلتی گئی۔ زندگی بھر کام کے علاوہ کچھ اور نہیں کیا۔ مجھے زندگی بھر کاموں سے کبھی فرصت نہیں ملی ۔میری زندگی کا ایک بڑا حصہ تو حصول علم میں گزرا ہے یعنی 24 سال میں انہیں حاصل کرتی رہی ہوں۔ اس میں جاب بھی کرتی تھی اور اپنا تخلیقی کام بھی کرتی تھی۔ کبھی ڈرامے لکھ رہی ہوں کبھی مضامین کبھی کالمز ،کبھی ریڈیو کے لیے آرٹیکلز، کبھی تقریریں ،کبھی فیچرز ،کبھی کتابیں ،کبھی لیکچرز ،کبھی انٹرویوز ،کبھی تقار یب کی کوریج کبھی، میٹنگز ،کبھی رپورٹنگ ،کبھی ایڈیشنز کی تیاری ۔پھر میرا اپنا گھر اور اس کی ذمہ واریاں تھیں۔ ُسسرال اور میکے کے رشتے اور فرائض تھے۔ اتنی مصروف زندگی میں کبھی بھی خود کو بھی آئینے میں نہیں دیکھا ۔ایسے میں میرے پاس کہاں وقت بچتا تھا کہ کبھی کسی بندے یا بندی پر سوچوں یا اُس پر رائے زنی کرو ں ۔ویسے بھی مجھے کمینٹس یا ریمارکس سے چڑتھی۔ یہ جاہل عورتوں کے کام ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کی چُغلیاں غیبتیں اور برائیاں کرتی ہیں یا لوگوں کے کانوں میں زہر انڈیل کر نفرتیں اورکدورتیں پیدا کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں جتنی بھی ویلی، جاہل سطحی اور حاسد عورتیں ہوتی ہیں اُن کی گفتگو کا موضوع علمی ادبی نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں کی ذات پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ دوسروں کی خوبیوں میں عیب کیڑے نکالنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔ جب سے عورتوں مردوں کا اختلاط بڑھا ہے تب سے مردوں میں بھی یہ بدترین زنانہ اوصاف پیدا ہو گئے ہیں۔ میں اپنی پریکٹیکل لائف میں زمانہ طالب علمی میں ہی آگئی تھی جب میٹرک میں تھی تب مجھے پروفیسر شفیق جالندھری اوررخسانہ نور نے روزنامہ جنگ میں اپنی اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر آفر کی تھی۔انٹر کے ایگزامز کے بعد میں نے ایک انگلش میڈیم سکول میں تین ماہ جاب کی مطلب میں لڑکپن سے پریکٹیکل لائف میں آگئی تھی۔ لیکن اصل امتحان میڈیا میں ا ٓکر ہوا جہاں بھانت بھانت کے لوگوں سے پالا پڑا ۔ایک دن میرے سابق ڈپٹی ایڈیٹر نے مجھے بلا کر پوچھا کہ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ آپ نے کہا کہ آپ کی کتاب کی تقریب رونمائی میں ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن میری کتاب کی تقریب رونمائی میں چند لوگ ہی تھے اور یہ فلاپ تقریب تھی۔ میں نے سید ارشاد عارف صاحب سے کہا میں نے تو ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ ارشاد عارف صاحب نے کہا یہ بات اُنہیں عمران نقوی نے بتائی ہے۔میں نے انہیں کہا کہ یہ بات اس نے خود مجھے کہی تھی کہ آپ جونیئر ہیں پھر بھی آپ کی تقریب شاندار تھی اور شاہ صاحب کی تقریب میں برائے نام لوگ تھے۔ لیکن مجھے ادبی ایڈیشن میں انہیں زیادہ اور آپ کو برائے نام کوریج دینی پڑے گی کیونکہ وہ سینیئر ہے اور ان کا عہدہ بہت بڑا ہے۔ ارشاد عارف صاحب نے دو مرتبہ مجھے دوران ِجا ب بلاکر اسی طرح پوچھا کہ آپ نے میرے متعلق فلاں ریمارکس دئیے ہیں۔ میں نے حیران ہو کر کہا کیا آپ نے کبھی میرے ساتھ برا سلوک کیا ہے جو میں ایسا کہوں گی۔ میں تو ہمیشہ سب سے پہلے آپ سے کوئی پرابلم ڈسکس کر تی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ارشاد عارف صاحب کے حُسن سلوک اور شائستہ لب و لہجہ سے جل کر لوگ اُنہیں میرے خلاف کان بھرتے تھے۔ وہ بیچارے کب تک مجھ سے سوال جواب کرتے لیکن یہ ہوا کہ ان کے دلِ و دماغ میں بھی گرہ پڑ گئی حالانکہ یہ سب حسد و رقابت اوردفتری سازشیں تھیں۔ ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی صاحب میرے انتہائی بہترین،مہذب قابل اعتماد اور ٹھنڈے مزاج کے کولیگ رہے ہیں ۔ہم نے رپورٹنگ میں کئی سال سخت وقت گزارا ہے۔ میں ان کی وجہ سے اکثر چیف رپورٹر سے لڑ پڑتی تھی کیونکہ سعید آسی صاحب کے ساتھ وہ بہت زیادتی کرتے تھے۔ سعید آسی صاحب، عباس اطہر دی گریٹ، محسن گورایہ، مزمل سہروردی ،سلمان غنی اور میں ۔۔۔ہم سب کے ساتھ چیف رپورٹر کا رویہ شدید متشددانہ تھا ۔میں کیونکہ ڈرتی نہیں تھی اور شٹ اپ کال دے دیتی تھی تو یہ حضرت اپنی لابی میں اور مجید نظام مرحوم کو میری طرف سے من گھڑت باتیں لگا دیتے ۔بعض اوقات مجید نظامی صاحب مجھے بلا کر کہتے کہ آپ نے میرے متعلق یا فلاں کے خلاف یہ بیان دیا ہے۔ میں حیران پریشان رہ جاتی۔پھر مجھے ہر بات معذرت سے بتانی پڑتی وضاحت سے بتانی پڑتی۔جنرلزم اور سیاست میں یہ ایک نہایت گندا سسٹم ہے کہ دوسروں کے حوالے سے من گھڑت باتیں کر دی جاتی ہیں جو مرد اور عورتیں ہر وقت باہر پھرتے ہیں اور لوگوں میں اُٹھتے بیٹھتے رہتے ہیں۔ وہ تو فوراً بات کو بے نقاب کر دیتے ہیں مگر میرے لیے ہر وقت دفاعی مورچہ سنبھالا ناممکن تھا اور نہ ہی میرا کبھی ایسا مزاج رہا ہے کہ میں اپنا قیمتی وقت ریمارکس پاس کرنے میں گزاروں لیکن مجھے کئی سالوں بعد پتہ چلتا کہ میرے نام سے فلاں بیان جاری کیا گیا یا میں نے 10 سال پہلے یہ فرمایا تھا ۔واقعات تو سینکڑوں ہیں مگر ایک کا مزید ذکر کروں گی۔ میری سات کتابیں علم و عرفان پبلشر گلفر از احمد صاحب نے شائع کی ہیں جن سے انہیں اور مجھے دونوں کو فائدہ پہنچا۔ وہ اچھی کتاب چھاپتے اور مجھے وقت پر رائلٹی دیتے تھے۔ کچھ لوگوں کو اس بات سے شدید حسد تھا ۔اُنہوں نے اپنی طرف سے گلفراز احمد صاحب کو خدا جانے میری طرف سے کیا کہا۔میری ایک کتاب اردو تنقید کا اصلی چہرہ کو چار پبلشر شائع کرنا چاہتے تھے۔ ایک پبلشر کو میںنے کتاب بھی کمپوزنگ کے لیے دے دی۔ ایک دن میری گلفراز احمد صاحب سے بات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ ٓاپ کی کتاب فلاں اور فلاں پبلشر کے پاس گئی تھی۔ میں نے آپ کی ساری کتابیں شائع کی ہیں ۔پھر آپ نے پبلشر کیوں بدلا۔ میں نے سادگی سے کہا آپ مجھے 10 فیصد ریلٹی دیتے تھے اور اُس نے 15 فیصد ریلٹی کی بات کی تھی۔ اس لیے میں نے اُسے دے دی۔ گلفراز احمد یہ کہہ کر ہنس پڑے اور کہا کہ 15 فیصد۔۔۔۔ مجھے محسوس ہوا کہ گلفراز احمد صاحب نے برا منایا ہے۔ دو دن بعد ہی اس پبلشر سے معذرت کر کے اپنی کتاب کا مسودہ گلفراز احمد کو دے دیا ۔گلفراز احمد کے پاس میں دو مرتبہ ہی گئی تھی۔ مجھے اردو بازار میں اتنے مردوں کے درمیان جانا اچھا نہیں لگتا تھا ۔ بعد میں اُنہوں نے کتاب اور رائلٹی دے دی مگر اُنکا رویہ انتہا ئی سرد ہو گیا۔ میرے اصرار پر انہوں نے فون پر مجھے بتایا کہ اس پبلیشر نے اور دو نام نہاد قسم کے شا عروں نے کہا کہ عارفہ صبح خان صا حبہ آپکے بارے میں یہ فرماتی ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ میری بہت عزت کرتے ہیں۔ میری کتابیں میری پسند کے مطابق شا ئع کرتے ہیں مجھے ۔ رائلٹی وقت پر دیتے ہیں ۔میں تو آپ کی دل سے مشکور ہوں لیکن جن لوگوں کی فطرت میں چغلیاں سازشیں اور شیطا نیاں ہوں ان کا کام بھی دوسروں کے دلوں میں وسو سے ڈالنا ہے۔ لیکن کسی بھی انسان کو کانوں کا کچا نہیں ہونا چاہیے یا کم از کم دوسروں سے تصدیق کرنی چاہیے۔ میں وضاحت کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے کچھ بھی کہنا ہو، میں منہ پر کہتی ہوں کیونکہ میں کسی سے ڈرتی نہیں ہوں مگر میں پیٹھ پیچھے کچھ نہیں فرماتی۔ گھٹیا لوگ اپنی طرف سے بکواس کرتے اور رشتوں میں دراڑیں ڈالتے ہیں۔
 

ای پیپر دی نیشن