کرکٹ ٹیم میں نئی روح

محمود بھٹی
پیرس کی ڈائری
جب سے قومی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا شروع ہوا ہے پاکستانیوں کو حیرت کے جھٹکے لگ رہے ہیں، تینوں ون ڈے میچوں میں خوش گوار حیرانی ہوئی، ہم آسٹریلیا میں پاکستانی ٹیم کی ایسی شاندار کارکردگی کے عادی نہیں ہیں،کوئی عاقب جاوید کو آسمان پر بٹھا رہا ہے، کوئی رضوان کی کپتانی کو کریڈٹ دے رہا ہے، کوئی دل جلا تو یہ بھی کہہ رہا بالروں کا کوئی کمال نہیں وکٹیں ہی تیز ہیں لیکن میرا یہ کہنا ہے وکٹیں تو آسٹریلیا کے بالروں کیلئے بھی تیز تھیں لیکن وہ صائم سے چھکے کھاتے رہے؟ہر کوئی اپنا اپنا تبصرہ کررہا ہے ، کوئی کہہ رہا ہے ٹیم کو پہلے کیا موت پڑی ہوئی تھی؟ نہ گیند بازی ہورہی تھی نہ بلے بازی، کیچ ایسے ڈراپ کررہے تھے جیسے ہاتھوں میں موریاں ہوئی ہوں، ایسے لگتا تھا کہ گلی محلے کی ٹیم پہلی بار میچ کھیلنے سٹیڈیم میں میچ کھیلنے آئی ہو، آسٹریلیا سے تین میچ کیا ہوئے ہر کوئی رضوان کی کپتانی کی تعریف کررہا ہے لیکن یہ صرف رضوان کا کمال نہیں ہے اس کارکردگی کے پیچھے چیئرمین محسن نقوی کا اپریشن راہ راست ہے،
 ٹیم کی بدنامی اور زوال میں ملوث کرداروں کو جونہی باہر بٹھایا سب تیر کی طرح سیدھے ہوگئے، سپر سٹار کھلاڑیوں کو سمجھ آگئی کہ ہماری بے بہاموجیں، کروڑوں کے اشتہارات، غیرملکی لیگوں کیساتھ معاہدے تو سب ٹیم میں ہونے کی بدولت ہیں، اگر زیادہ دیر تک ٹیم سے ہی باہر بیٹھے رہے تو سب ختم ہوجائیگا،متبادل کھلاڑی باری لینے کیلئے قطار میں منتظر ہیں، پیغام دیا گیا کہ محمد آصف جیسا بالر آج تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا لیکن اس نے اپنے پیروں پر ایسی کلہاڑی ماری کہ کیرئیر ہی ختم کروا بیٹھا، عمر اکمل اور کامران اکمل نے بھی گروپ بندی کرکے اپنے کیرئیر خود ختم کروائے، آسٹریلیا میں جاکر آسٹریلیا کو ہرانا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا زبردست پریشر ہوتا ہے، ہوم سیریز میں زبردست پٹائی ہونیکے بعد ٹیم کو پالیسی پیغام دیدیا گیا تھا کہ آسٹریلیا کا دورہ ناکام ہوا تو بہت سوں کی قربانی ہوگی،سب کھلاڑیوں پر واضح تھا کہ گردن زنی ضرور ہوگی اس لئے اب کرو یا مرو کی پالیسی پر عمل کرناہوگادرمیانی راستہ کوئی نہیں ہے،ٹیم پر واضح کردیا گیا تھا کہ آسٹریلیا دورہ میں آپ کی کارکردگی کی سخت ترین مانیٹرنگ کی جائیگی، چیئرمین کی چیتاونی کام کرگئی، تینوں میچوں میں ہر کوئی ٹیم کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرتا دکھائی دیا، جوشاہین بالنگ کروانا بھول گیا ہے اسے سارے پرانے اسباق یاد آگئے، وہ بابر جو بلا گھمانا بھول گیا واپس ا?تا دکھائی دے رہا ہے، بابر اور شاہین جو بات کرنا تو دور ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے محمود و ایاز بن کر شیر وشکر ہوتے دکھائی دیئے،اس کا ثبوت یہ ہے کہ بال لگنے پر فزیو کے پہنچنے سے پہلے شاہین کے انگوٹھے کا مساج بابر نے آگے بڑھ کر کیا، کھلاڑیوں کی بدن بولی بھی چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ محسن نقوی ٹیکے کا اثرخاطر خواہ ہوا ہے،اب ہر کوئی ٹیم کے جیتنے کی بات کررہا ہے،ٹیم ورک کی بات کررہا ہے، کوئی اپنی پروموشن نہیں کررہا ہے، وہی ٹیم جس میں تین الگ الگ گروپ بنے ہوئے تھے یکجا ن ہوکر لڑے ،بالنگ میں پکڑائی نہیں دی ، بیٹنگ میں اپنی وکٹیں تحفے میں نہیں دیں، کیچ ڈراپ نہیں کئے اور فیلڈنگ بھی شاندار رہی ، چاہے کچھ بھی ہو یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ، لیکن اگر زوال کو عروج تک تادیر برقرار رکھنا ہے تو اس کا مکمل انتظام کرنا ہوگا ،اور وہ انتظام صرف اور صرف نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ہوگا، جہاں پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے تمام کھلاڑیو ں کو محنت، مساوات،رواداری، برداشت اور نظریہ درست کرنےو دیگر پہلوﺅںبارے مستقل تربیت دینا ہوگی،نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بھاری بھرکم مشاہروں پر تعینات سٹاف کو ایک مجوزہ نصاب دینا ہوگا تاکہ وہ تمام پہلوﺅں کو مدنظر رکھتے ہوئے کھلاڑیوں کی حقیقی تربیت پر نہ صرف زور دیں بلکہ جزا و سزا کا سخت نظام بھی نافظ کریں،نیشنل کرکٹ اکیڈمی کی ایسی موبائل ایپلی کیشن بنانا ہوگی جس میں شفاف طریقے سےکھلاڑیوں کو کارکردگی پوائنٹس ایوارڈ کئے جائیں ، کرکٹ کے تمام زعما جان لیں کہ پتھر کا دور چلا گیا ہے اور اب پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو قابل اعتماد اور مستقل بنانے کیلئے اسے آٹو میٹڈ موڈ پرمنتقل کرنا ہوگا تاکہ بار بار محسن نقوی کو مداخلت کرتے ہوئے نئی روح نہ پھونکنی پڑے اور ٹیم ہر قسم کی جگ ہنسائی سے بچ سکے۔

ای پیپر دی نیشن