نومنتخب صدر ٹرمپ! کیا گذشتہ پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھیں گے؟

 گلوبل ویلج                
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کی سیاست آج کل امریکی انتخابات کے گرد گھوم رہی ہے۔پاکستان کی سیاست پر بات کرنے سے پہلے تھوڑا ایران چلتے ہیں۔ ایران بھی کیا، ایران سے آگے امریکہ ہی چلے چلتے ہیں۔ زلمے خلیل زاد یہ جنوبی ایشیا میں ٹرمپ دور میں امریکہ کے نمائندے رہے ہیں اور ان دنوں افغانستان کا معاملہ زوروں پر تھا جب ٹرمپ کا اقتدار ختم ہو رہا تھا۔ جوبائیڈن اقتدار میں آ رہے تھے، زلمے خلیل زاد نے افغان پالیسی کو جس طریقے سے چلایا ،انہوں نے گویا ایک بنیاد باندھ دی تھی افغانستان سے انخلاءکی۔ اگر ہیلری کلنٹن جیتی ہوتی، ٹرمپ امریکی صد نہ بنے ہوتے تو ایسا ممکن نہیں تھا کہ امریکہ افغانستان سے چلا جاتا۔ ٹرمپ کی شخصیت سے ان کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ جتنا عرصہ بھی اقتدار میں رہے انہوں نے کوئی نئی جنگ کسی ملک کے ساتھ نہیں چھیڑی۔ افغانستان کا مسئلہ بھی انہوں نے حل کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی اور جہاں تک وہ معاملات کو چھوڑ گئے تھے اس کو ریورس کرنا جوبائیڈن کے لیے ناممکن تھا۔ زلمے خلیل زاد کی طرف سے آج جب کہ وہاں پہ صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہو چکا ہے۔ وہاں پہ ٹیکنگ وہاں پہ ہینڈنگ ٹیکنگ اور جاری ہے۔
امریکہ کے محکمہ انصاف کی طرف سے یہ ایک خبر دی گئی ہے کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے اپنا ایک ایجنٹ بھیج دیا ہے ٹرمپ کی نگرانی کرنے کے لیے اور ٹرمپ کو قتل کروانے کے لیے ۔ اس بار زلمے خلیل زاد کی طرف سے ایک ٹویٹ سامنے آیا ہے۔ وہ اس پر کہتے ہیں کہ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک ایجنٹ کو صدر ٹرمپ کی نگرانی اور قتل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ،اگر یہ سچ ہے تو کوئی اس سے زیادہ لاپرواہ غیر دانشمندانہ خیال کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا، ہمیں اس کی تہہ تک پہنچنا چاہیے۔ ایرانی حکومت کو جواب دے ٹھہرانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ دوبارہ کبھی اس طرح کے منصوبے کا آغاز کا منظر نامہ پیش نہ کر سکے۔ اگر یہ حکومت جوہری ہتھیار حاصل کرتی ہے تو ہم میں سے کتنی ذمہ دار ہونے کی توقع کر سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے۔ یہ زلمے خلیل زاد کی طرف سے ٹویٹ کیا گیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی پاسدارانِ انقلاب وہ ٹرمپ کو قتل کروانا چاہتے ہیں یا پھر ٹرمپ کو اقتدار میں آتا دیکھ کر جوبائیڈن انتظامیہ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے کیونکہ ٹرمپ کا اُن ملکوں کی طرف رویہ آج کی انتظامیہ کی نسبت کہیں زیادہ نرم ہے، جن کے ساتھ امریکہ کی نہیں بنتی۔ ان میں ایران بھی ہے، افغانستان بھی ہے جیسا کہ افغانستان سے ٹرمپ کی طرف سے فوجوں کے انخلا ءکا اعلان کیا گیا تھا اور جوبائیڈن کی مجبوری بن گئی تھی کہ وہ اس معاملے کو جاری رکھتے اور بالآخر افغانستان سے امریکہ کو انخلاءکرنا پڑا تھا ۔اور امریکہ کی جوبائیڈن کی یہ پوری کوشش تھی کہ جاتے ہوئے افغانستان میں معاملات طالبان کے حوالے نہ کیے جائیں بلکہ وہاں پہ بھان متی کا کنبہ بٹھا دیا جائے۔ ساری پارٹیاں مل کے افغانستان میں حکومت کریں۔ ایسا ممکن اس لیے نہیں تھا کہ سارے کے سارے گروپ اور گروہ مل کر نہیں بیٹھ سکتے تھے تو اس میں پاکستان کی حکومت کی طرف سے بڑا زبردست کردار ادا کیا گیا کہ افغانستان طالبان کے حوالے ہی کیا گیا اس میں ہماری فوج کے کمانڈروں کا حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون شامل تھا بلکہ انہی کی طرف سے سارے معاملات طے ہوئے تھے۔
آپ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان پر اثر انداز ہوں گی۔ ویسے پاکستان امریکہ کے لیے موجودہ دور میں اتنی زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے لیکن افغان وار کے دوران پاکستان امریکہ کے لیے نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا اور پاکستان نے امریکہ کی جنگ میں بڑھ چڑھ کر اپنی حیثیت سے زیادہ زور آزمائی کر کے دکھا دی تھی۔
کچھ لوگوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی رہائی میں ٹرمپ اپنا کردار ادا کریں گے ،تو اس حوالے سے زلمے خلیل زاد کیا کہتے ہیں۔ وہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کے نمائندے رہے اور ایسا نمائندہ جو بھی ہو وہ ہمیشہ بڑی طاقت میں ہوتا ہے۔زلمے خلیل زادکے ساتھ ٹرمپ کے انتہائی زیادہ قریب تھے ،ہیں اور آئندہ بھی شاید ٹرمپ انتظامیہ کا حصہ ہوں۔پچھلے سال ان کی طرف سے ایک ٹویٹ کیا گیا تھا جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنا تھا۔ انہوں نے عمران خان کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان کی پارٹی کو جس طرح سے حکومت دبانے کی کوشش کر رہی ہے یہ مناسب نہیں ہے، بلکہ انتخابات ہونے چاہیے، انتخابات کا التوا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ زلمے خلیل زاد کا یہ کہنا پاکستان کے معاملات میں مداخلت کے مترادف تھا ،جس پر پاکستان کی طرف سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا جو کہ کیا ہی جانا چاہیے تھا اور امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی کہا گیا کہ چونکہ زلمے خلیل زاد کا حکومت کے ساتھ، آج کی انتظامیہ کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے، اس لیے ان کے بیان کو سیریس نہ لیا جائے۔اور پھر زلمے خلیل زاد کی طرف سے انتخابات سے قبل پانچ نومبر کو ایک ٹویٹ کیا جاتا ہے ایس بیٹ کو بھی پاکستان میں مداخلت ہی قرار دیا جانا چاہیے ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ زرداری کی پیپلز پارٹی اور نواز کی پی ایم ایل این کے زیر تسلط پاکستانی پارلیمنٹ نے آرمی چیف اور دیگر سروسز کے چیف کی مدت ملازمت میں پانچ سال کا اضافہ کیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد اپنی گرفت کو حکومت پر طول دینا ہے اور پسندیدہ ججوں کو تعینات کر کے ملک کی عدلیہ کو کمزور کرنا ہے۔ اس کے نتائج اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی نقصان دہ ہوں گے، جس سے مزید پولرائزیشن ہوگی، عدم استحکام اور تشدد کے عنصر میں اضافہ ہوگا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کو رہا کر کے آج کے نجیب اپنا راستہ بدل سکتی ہے۔ جنہیں ٹرمپ کے جن الزامات کے تحت ٹرمپ کو گرفتار کیا گیا تھا ایسے ہی الزامات عمران خان پر بھی لگائے گئے ہیں تو زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکی انتخابات ہونے سے پہلے عمران خان کو حکومت کی طرف سے رہا کر دیا جانا چاہیے اور پھر زلمے خلیل زاد کا ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد بھی ٹویٹ سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اور عمران خان گہرے دوست ہیں تو عمران خان کو اس سے پہلے کہ ٹرمپ اقتدار میں آئے رہا کر دینا چاہیے۔
یہاں پہ یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کا ٹرمپ کے باقاعدہ صدر بننے کے بعد پاکستان میں ایسی مداخلت کرے گا کہ عمران خان کی رہائی کے حوالے سے وہ کوئی پاکستان پر دباو¿ ڈالے۔۔ویسے میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ ایسا کچھ کریں گے۔ پاکستانی انتظامیہ کو کوئی فون کریں گے۔ جلد دباو¿ ڈالیں گے لیکن پاکستان کے چونکہ امریکہ کے ساتھ ہمیشہ سے تعلقات بہتر رہے ہیں اور خواجہ آصف کی طرف سے کہا گیا تھا کہ امریکہ ہمارا ساتھی رہا ہے ،ہمیں ہمیشہ بحرانوں سے اس نے نکالا ہے، ہماری معیشت تو وینٹیلیٹر پر ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہم دشمنی مول نہیں لے سکتے کہ وہ وینٹیلیٹر ہٹا نہ دے تو ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ پاکستان کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن