راج دھانی/سرفراز راجا
کہتے ہیں کسی بااثر شخص کے ساتھ تصاویر بنوا کر اس کی تشہیر کرنا بھی ذہنی غلامی کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ہم اسے امیج بلڈنگ کہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ کسی بڑے عہدے والے شخص کے ساتھ تصویر لگانے سے لوگ آپ کو بھی بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور یقین جانیں ہمارے یہاں کچھ ایسا ہی ہے۔ اکثر لوگ اس مشہور اور بااثر شخص کے ساتھ تصویر دیکھ کر آپ کو بھی پروٹوکول دینا شروع کردیتے ہیں،ہمارے ایک دوست جب بھی کسی مشہور شخص کی وفات ہوجاتی تو سوشل میڈیا پر ایک تعزیت کا اسٹیٹس ڈالا کرتے جس میں اس شخص کے ساتھ گزشتہ چند روز میں ہونے والی کسی ملاقات یا ٹیلی فون کا ذکر لازمی کرتے۔ ایک دن مذاق مذاق میں اسے چھیڑنے ہوئے ایسے سٹیٹس کا حوالہ دیا تو دوست نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے بات پوشیدہ نہ کررکھی اور خود ہی بول دیا کہ سوشل میڈیا پر جو بھی ہوتا ہے پبلک پرسیپسن یعنی عوامی تاثر بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ کون سا کسی نے اس مرے ہوئے شخص سے جاکر پوچھنا ہے کہ کیا فلاں شخص آپ کا جاننے والا تھا۔ تو اب یہ پبلک پرسیپشن یا عوامی تاثر ایک حکمت عملی بن چکا ہے۔
ہمارے ایک سابقہ کو لیگ نے ادارے میں یہ تاثر بنا رکھا تھا کہ ان کی مالکان کے ساتھ بڑی اچھی ہے وہ اسے باقاعدگی کے ساتھ فون بھی کرتے ہیں مشورے لیتے ہیں ،بہت سے لوگ ان کے مالکان کے ساتھ اس ’براہ راست تعلق‘ کی وجہ سے ان کو اضافی پروٹوکول دیتے۔ بھرم تب ٹوٹا جب ایک دن مالک صاحب نے ایک بھری میٹنگ میں ان صاحب کا ذکر آنے پر پوچھ لیا کہ یہ صاحب کون ہیں۔پھر ان کے ساتھ جو ہوا وہ الگ ہی کہانی ہے،گزشتہ دنوں امریکا کے صدارتی انتخابات ہوئے انھیں امریکی تاریخ کا سب سے کانٹے دار انتخاب قرار دیا جارہا تھا یہ اور بات ہے کہ نتائج میں ایسا دکھائی نہیں دیا،لیکن ہم نے امریکی انتخابات کو اپنی سیاست میں ضرور رنگ دیا، ہمارے تحریک انصاف کے دوست جن کی امیدیں ایک ایک کرکے دم توڑ رہی تھیں اس بار وہ امریکی انتخاب سے امید لگا کر بیٹھ گئے ٹرمپ آئے گا عمران خان کو رہا کرائے گاوغیرہ ،جیسی امید۔
لیکن اس امید کی حقیقت کیا ہے؟ ٹرمپ کا عمران خان یا ان کے معاملات سے کیا لینا دینا؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے تو جب امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار صدر بن چکے تھے تو پاکستان میں عمران خان وزیر اعظم بن گئے ہمارے میڈیا میں ٹرمپ اور خان کی مشترکہ خصوصیات کا موازنہ کیا جانے لگا دونوں میں کئی باتیں ایک جیسی تھیں بھی ، پھر جب خان صاحب امریکا کے دورے پر گئے تو وہاں ان کی جبرل اسمبلی اجلاس کے لیے آنے والے کئی دیگر سربراہان کی طرح امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو میں عمران خان کے لیے مائی فرینڈ میرا دوست کے الفاظ استعمال کردیے تو ہم نے انھیں ٹرمپ کا دوست سمجھ لیا۔ اگر آپ کسی بھی کھلے ڈلے انگریز سے ملیں تو وہ اپنی بات چیت میں مائی فرینڈ کا لفظ بڑا تواتر کے ساتھ استعمال کرتا ہے۔ اس ملاقات میں ’مائی فرینڈ‘کے علاوہ اگر کوئی بڑی خبر تھی تو وہ تھی امریکی صدر کی کشمیر پر ثالثی کی پیشکش۔ ایسی پیشکشیں ماضی میں بھی کئی بار ہوچکی تھیں لیکن اس ملاقات کے کچھ عرصے بعد بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا اور ثالثی دھری کی دھری رہ گئی۔
عمران خان کے دور میں ان کی ’اپنے دوست‘ٹرمپ کے ساتھ یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ پھر دونوں کی حکومتیں چلی گئیں نہ کبھی ٹرمپ نے خان کو یاد کیا نہ ہم نے اس دوستی کو۔ لیکن حالیہ انتخابات سے قبل ہمیں پھر اس دوستی کی ایک امید پیدا ہوئی یا یوں کہہ لیں پیدا کی گئی۔ سوشل میڈیا پر ٹرمپ کی اے آئی سے بنائی جانے والی جعلی ویڈیو سامنے آئی جس میں انھوں نے جیت کر عمران خان کو رہا کروانے کے وعدے کے ساتھ عمران خان زندہ بادکا نعرہ بھی لگایا اور ہم نے اندھا دھند اس ویڈیو پر یقین کرلیا اور امیدیں لگا لیں۔ یہ نہیں سوچا کہ ٹرمپ عمران خان کو کیسے اور کیوں رہا کروائیں گے وہ کیا فائدہ ہے جو ٹرمپ کو عمران خان کو رہا کروانے سے ہوسکتا ہے۔ عمران خان کے چاہنے والے تو اب بھی گاڑیوں کے پیچھے ایبسلوٹلی ناٹ لکھوا کر گھوم رہے ہوتے ہیں تو کیا امریکا ان کو اس لیے رہا کروائے گا کہ وہ آکر انھیں پھر ایبسلوٹلی ناٹ بولیں اور ایسا کیا ہوسکتا ہے؟
اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ امریکا کئی سال سے کوششوں کے باوجود ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا نہیں کروا سکا تو عمران خان کو کیسے رہا کروا پائے گا، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ملکوں کے تعلقات حکومتوں کے ساتھ ہوتے ہیں شخصیات کے ساتھ نہیں۔ اگر کسی رہنما نے ہمارے کسی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں گرمجوشی دکھائی تو وہ ملک کے وزیر اعظم کے ساتھ گرمجوشی ہوتی ہے اس شخص کے ساتھ نہیں۔ اس گرمجوشی کی وجہ اس ملک کے ہمارے ملک کیسے جڑے مفادات ہوتے ہیں ذاتی تعلقات نہیں، ہم نے خود کو جھوٹی تسلیاں دینے کے لیے منصور علی شاہ آئے گا، الیکشن کو کالعدم قرار دے دیگا جیسے سوشل میڈیا سٹنٹس کے زریعے ایک انتہائی اچھی ساکھ کے قابل جج کو متنازعہ بنادیا اور اب ہم نے ٹرمپ آئے گا عمران خان کو رہا کروائے گا جیسے سٹیٹس لگا کر عمران خان کی آنے والے عرصہ میںکسی بھی وقت ہونے والے رہائی کو متنازعہ بنادیا وہ اب میرٹ پر بھی رہا ہوگئے تو ان کے چاہنے والوں نے اس پر امریکی مداخلت کا ٹھپہ لگوادیا۔ اسی کے لیے تو وہ مثال بھی ہے نا نادان دوست والی۔