شاز ملک
یہ بڑے راز کی بات ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں سجدے میں اپنا سر اللہ کے قدموں میں رکھ دیں تو دنیا قدموں میں ہوتی ہے۔۔۔یعنی بے وقعت لا یعنی۔۔
تب نصیب اپنے اوج پر ہوتا ہے وہ وقت اور وہ لمحات اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ بس اللہ اور میں۔۔ میری محبت کی انتہا ہے کہ میں اپنے خالق اپنے مالک کے قدموں میں سر رکھ کر حالتِ سجدہ میں اس ذاتِ واحد کی بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں ان لمحات میں دھیان خیال کی رو صرف اور صرف اپنے رب پاک کی طرف ہی بہتی ہے۔۔۔۔ بس اک رب کی پاکیزہ یاد کا تسلسل اور اللہ سے محبت کا تصور اتنا پرسکون ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ سجدے سے کبھی سر نہ اٹھے۔۔۔ لبوں ہر وردِ اللہ۔۔ ذکرِ پاک رہے
اور دل روح اور زبان بس اللہ± کا ورد کرتے رہیں۔۔دنیا کے شور و شر سے پرے محبت اپنی جبیں اپنے محبوب اللہ کے قدموں میں رکھ دیتی ہے۔۔۔تو پھر سارے جہاں سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔۔۔
سر کو جھکا کر جب اٹھایا کاسہ تیرے عشق کا
میری طلب کے ہاتھ آیا سجدہ تیرے عشق کا
یار حقیقی سے محبت کا تصور بہت مقدس ھوتا ھے جب دل اور جسم و جاں کے فنا ھونے کا احساس روح کو وجد میں لے آتا ھے ایسا وجد جو عشق کی تال پر رقصاں ھو کر پوری کائنات سے بے خبر کر دیتا ھے روحانیت دراصل روح سے منسوب ھے اگر یہ روح میں نہ ھو تو ڈھونڈنے سے کہیں نہیں ملتی روح میں روحانیت کا تصور یوں پنہاں ھوتا ھے جیسے دل میں دھڑکن۔۔۔مگر دنیاوی جھنجھٹ اس رنگ کو گہنا دیتے ھیں اس طرح کے دنیاوی رنگ کو اوڑھنے والی روح اس رنگ سے نا آشنا ھوتی چلی جاتی ھے
بہت نا محسوس طریقے سے روح کا روحانیت سے رشتہ ٹوٹتا جاتا ھے اور انسان دنیا داری میں مگن ھو کر جسم کی حرص و ھوس کی دنیا میں گم ھوتا چلا جاتا ھے اور روح سے نا آشنا ھو جاتا ھے۔۔
”دنیا کے برزخ میں انسان کا قیام عارضی جسم کے برزخ میں روح کا قیام وقتی ھے اور قبر کے برزخ میں جسم کا قیام بھی عارضی اور پھر روح کا قیام عالم بالا کے برزخ میں بھی عارضی۔۔۔ “ روح کا اصل ابدی مقام اپنے سچے سوھنے رب کے قدموں میں ھے۔سجدے میں عجز کے ساتھ جھکنے میں ھے اور اسکی بندگی کے اظہار کا سب سے بہترین ذریعہ سجدہ ھی ھے۔ روح جب سجدے میں اپنا سر رب کائنات کے قدموں میں رکھتی ھے تووہ سجدے میں اپنے ھونے کے احساس سے اپنی تکمیل کا احساس پاتی ھے ۔ رب تعالیٰ اپنی اطاعت گزار روح کے اس سجدے کو قبول کر کے انعام میں روح پر جنت کے دروازے کھول دیں گے
وہ جنت جسکا تصور رب تعالی کے سوا کسی کو نہیں لیکن اس حقیقت کو سمجھ کر بھی سمجھا نہیں جاتا کاش ہم اس حقیقت پر یقین کر لیں اور اپنی آخرت کی بہتری کے لیئے رب کی محبت میں سجدے میں جینا سیکھ جائیں آمین
ملا جو رب سے اس پر کب کہاں کس نے قناعت کی
کیا ہو شکر کا سجدہ محبت سے عبادت کی
ادا ہو ں با وضو سارے فرائض زندگی کے پر
کہاں قرآن کو سمجھا کہاں دل سے تلاوت کی
وہ کہتا ہی رہا کرتا ہوں تم سے پیار میں لیکن
یہاں سجدوں میں اس کے ساتھ سب نے بس تجارت کی