سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی
ہماری قومی سیاسی تاریخ کافی دلچسپ ہے بہت سارے اتار چڑھاﺅ آتے رہے کئی تبدیلیاں آئیں ،ان 75سال میں کبھی ملک میں جمہوریت آئی اور کبھی مارشل لا لگا ،لیکن کبھی بھی ملک میں ایک طاقتور بامعنی اور مضبوط بلدیاتی نظام نہیں لایا جاسکا۔ہمارا مسئلہ موجود ہے کہ ہم کبھی بھی اختیارات کی منتقلی اور اختیارات کی تقسیم پر یقین نہیں رکھتے ہیں ،ہر کسی کی یہی کوشش رہتی ہے کہ اختیارات اپنے پاس رکھے جائیں ،بہر حال ہمارے قومی المیے تو اور بھی بہت ہیں لیکن یہ قومی المیہ ہی ہے کہ مقامی حکومتوں سے نفرت کی جاتی ہے۔اس نظام کو آسان بنانا چاہیے ،یہ کو ئی لمبا چوڑا فلسفہ نہیں ہے۔اسی یقین کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کہ لوکل گورنمنٹ ہی تمام مسائل کا حل ہے ،کیونکہ تمام مسائل مقامی ہی ہو تے ہیں اس بات پر یقین کرنے کی ضرورت ہے۔مسائل مقامی سطح کے ہی ہو تے ہیں ،توجہ نہ دی جائے تو صوبا ئی مسائل بنتے ہیں اور پھر قومی سطح کے مسائل بن جاتے ہیں۔ہمارا نظام مرکزیت پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے جس کے اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں اور مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔ہمارا پورا کا پورا زور، ساری سیاسی طاقت اور قوت اسلام آباد پر ہی مرکوز رکھی جاتی ہے ،زیادہ سے زیادہ صوبائی دارلحکومتوں پر توجہ ہو تی ہے اور اس کے علاوہ کسی اور علاقے کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے جو کہ مسائل کا باعث بنتا ہے۔ہمیں اس سوچ کو اور اس روش کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔صوبائی حکومتوں کا زیادہ بجٹ بھی اپنے صوبائی دارلحکومتوں کو بہتر بنانے میں لگ جاتا ہے جبکہ دیگر علاقے نظر انداز ہو تے ہیں۔ہر صوبہ علاقوں کو اضلاع در اضلاع میں تقسیم کرتا چلا جاتا ہے اور یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ اختیارات تقسیم ہو ں گے عوام کو اپنے گھر سے زیادہ قریب سہولیات میسر آئیں گی لیکن اصل میں ہوتا کیا ہے کہ علاقوں میں اضلاع در اضلاع میں تقسیم کرنے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی علاقے میں ترقی ہوتی ہے لیکن افسر شاہی کے اختیارات اور ان کے خرچے یقینا بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ان کا عملہ بھی بڑھتا جاتا ہے اور ہر طرح کے لوازمات پورے کرنے میں عوام کہیں کی نہیں رہتی اور نہ ہی علاقے میں ترقی ہوتی ہے۔جو پیسہ ترقی پر اور انسانی وسائل پر خرچ ہونا چاہیے وہ پیسہ افسر شاہی پر خرچ ہو جاتا ہے۔اس تمام صورتحا ل کا حل یہی ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام لایا جائے جو کہ عوام کے بنیادی مسائل ان کی دہلیز پر حل کرے۔تمام تر مغربی جمہوری ممالک میں یہی نظام رائج ہے بلکہ کئی ممالک میں تو کسی شہر کا میئر اس صوبے کے گورنر یا پھر وفاقی عہدے داروں سے بھی زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی سوچ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام لانے کے لیے صف اول میں کھڑا ہو اور اہم کردار ادا کرے۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے زیادہ توجہ مقامی حکومتوں کے نظام کو دے تاکہ پاکستان میں بھی بنیادی جمہوریت کے تصور کو فروغ مل سکے۔جس انداز میں پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے اور جس جانب یہ صورتحال جارہی ہے اس صورتحال میں کچھ تو کرنا پڑے گا ،یا تو نئے صوبے بنانے پڑیں گے تاکہ انتظامی یو نٹ چھوٹے ہو ں اور آسانی سے مینج ہو سکیں یا تو دوسری صورت یہی ہے کہ مقامی حکومتوں کے نظام کو اس حد تک مضبوط اور موثر انداز میں لایا جائے اور چلایا جائے کہ مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہو جائیں اور کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔ہمارے ملک کا نظام جس انداز سے چلایا جا رہا ہے یہ ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ مسائل میں اضافے کا باعث ہی بن رہا ہے ہمیں چاہیے کہ اب ضروری تبدیلیاں لا ئی جائیں ،تاکہ عوام کے مسائل حل کیے جاسکیں۔عوام کے مسائل کا حل ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔عوام کو ڈیلور کیے بغیر کوئی بھی حکومت یا کوئی بھی نظام زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا ہے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔مقامی مسائل جمہوری انداز سے دیہی علاقوں میں حل ہو جائیں تو اسلام آباد کی توجہ کے طالب نہیں رہے گے اور عوام کو زیادہ اپنا ئیت کا احساس ملے گا۔کراچی شہر کی مثال کو ہی لے لیجیے ،یہاں پر ماضی میں مقامی حکومت بہت ہی باکمال انداز میں چلائی گئی ہے ،شہر کا نقشہ ہی مقامی حکومتوں نے بدلا ہے ،ماضی میں بھی نعمت اللہ خان اور دیگر نے بہترین کام کیا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ اس نظام پر تواتر سے عمل نہیں کیا گیا درمیان میں اس کو ختم کر دیا گیا جس سے کہ مسائل نے جنم لیا۔اگر متواتر 3ادوا ر تک میونسپل اسمبلی نے اسی طرح کام کیا ہو تا تو کراچی شہر کو مسائل درپیش نہ ہو تے ،اور آج کراچی ایک ترقی یافتہ شہر ہو تا۔ہمیں ان مسائل پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے۔پالیسیوں میں عدم تسلسل بھی ہمارے مسائل کی بہت بڑی وجہ ہے۔قومی اسمبلی کو قانون سازی کے علاوہ اور کسی چیز پر دھیان دینا لازمی نہیں ہے۔ممبران اسمبلی کو بھی فنڈز کی دوڑ سے نکل کر قانون سازی اور پالیسی سازی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ،یہ ترقیاتی فنڈز کے نام پر ممبر پارلیمان کو پیسے دینے کا سلسلہ ایک آمر نے شروع کیا تھا اور یہیںسے ملک میں حقیقی طور پر کرپشن کی ابتدا ہو ئی ہے ،اور پھر پھیلتی چلی گئی۔ضروری ہے کہ فنڈز مقامی حکومتوں کو دیے جائیں تو ہی ترقی کا عمل تیزی سے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔اس نظام کی سوچ یہ ہے کہ ہم اسلام آباد میں بیٹھ کر پشین کے مسائل کا حل کریں گے تو یہ سوچ ہی غلط ہے اور سمجھ سے بالا تر ہے اس سے نکلنا ہو گا۔