ماما رفیق ،ماہرنگ ، سیمی دین اور آمنہ بلوچ کے لاپتہ نوجوان ویڈیوز میں زندہ ہو گئے۔
مسنگ پرسنز کے نام سے قوم پرست تصویر اٹھائے حقیقت سے ہٹ کراندرون اور بیرون ملک جو شور مچا رہے ہیں‘ ان میں لالہ رفیق اور ماہرنگ بلوچ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس بات سے قطع نظر لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے‘ ایسا نہیں ہونا چاہیے انکے گھر والے بہت کرب سے گزرتے ہیں۔ کہ معلوم نہیں وہ زندہ ہیں یا نہیں۔ حکومت انکی دادرسی کرے‘ جو ملزم یا مجرم ہیں‘ انکے نامہ اعمال سمیت تمام انکی کار گزاری میڈیا‘ عوام اور انکے گھر والوں کے سامنے لائے‘ عدالت میں پیش کرے۔ اس طرح کم از کم ان میں سے اکثر لاپتہ افراد کا تو پتہ چل جائیگا جو حکومت کی تحویل میں ہیں۔ رہے باقی مسلح دہشت گرد تحریکوں میں شامل لوگ‘ ان کا بھی کچا چٹھہ سامنے آجائیگا اور پھر کوئی ان کے نام پر سڑکوں ‘ دھرنوں اور جلسوں میں نوجوانوں کو قومیت کے نام پر بھڑکا نہیں سکے گا۔ جو ازخود بھاگے ہیں‘ دہشت گردوں سے ملے ہیں یا ملک سے فرار ہیں‘ وہ تو لاپتہ نہیں ہوتے البتہ انہیں بھگوڑا ضرور کہا جا سکتا ہے۔ انکی تصاویر اٹھا کر جھوٹا پراپیگنڈا کرکے لوگوں کو مشتعل کرکے ملک کے خلاف منفی مہم چلاتے ہیں۔ یہ گمراہ عناصر دہشت گردی کرتے ہیں‘ سکیورٹی فورسز ہی نہیں‘ عام لوگوں کو بھی بیدردی سے مارتے ہیں بعدازاں کالعدم تنظیموں کی ویڈیوز میں جو لوگ اپنے کارنامے بیان کر کے ہیرو بنتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تو وہی لاپتہ افراد ہیں‘ جن کیلئے لالہ رفیق اور ماہرنگ بلوچ سب کو بے وقوف بنا رہے ہیں اور زندہ بھگوڑوں کا ماتم کرتے ہیں۔ اب اکثر لاپتہ افراد کی تصویریں اور ویڈیوز وقفے وقفے سے سامنے آنے پر بھی یہ سب شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ اپنا وہی پرانا راگ گاتے رہتے ہیں جس کیلئے انہیں بیرونی ممالک سے بھاری قیمت ملتی ہے اور یہ آرام سے کبھی لندن‘ کبھی امریکہ‘ کبھی جرمنی اور کبھی سوئٹزرلینڈ گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب یہ پیسہ انکے پاس کہاں سے آتا ہے‘ یہ کوئی تو ان سے پوچھے‘۔مگر ایسا سوال کرنے پر یہ اپنے بلوچ ساتھیوں کو بھی مار کر حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں
بی فور تحریک کا ٹرمپ کی کامیابی پر احتجاج۔ شادیاں نہ کرنے کا فیصلہ۔
یہ بی فور (B4) خواتین کے حقوق کی ایک تحریک ہے جس کا آغاز کوریا سے ہوا ہے۔ اس میں شامل خواتین نہ تو مردوں سے راہ رسم رکھنا پسند کرتی ہیں نہ شادی کرتی ہیں‘ نہ بچے پیدا کرتی ہیں۔ یہ ایسا کرکے کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ کوریا میں شاید ایسی شدت پسند تحریک کی وجہ سے یا ایسے نظریات رکھنے کی وجہ سے شرح پیدائش بہت کم ہے۔ وہاں خواتین سماجی گھریلو ذمہ داریاں اور بچوں کو پالنے سے منتفر ہیں۔ ایسا تو یورپ میں بھی ہے۔ مگر وہاں ایسی کوئی تحریک نہیں اٹھی۔ وہاں بھی شادی سے قبل تعلقات‘ پھر ہم آہنگی کے بعد شادی ہوتی ہے‘ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر شرح پیدائش وہاں بھی کم ہے۔ جبھی تو وہاں بھی آبادی بڑھانے پر زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف وہاں خواتین اسقاط حمل کو اپنا حق قرار دینے والے قانون کی حمایت کرتی ہیں۔ بہرحال اب یہ بی فور تحریک جو خالصتاً زنانہ تحریک ہے‘ مردوں سے نفرت اسکی بنیاد ہے۔ اس نے امریکی صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے پر احتجاجاً وہاں بھی تحریک شروع کر دی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ کو سب سے زیادد ووٹ مردوں نے دئیے اس لئے وہاں تحریک میں شامل خواتین احتجاجا شادی نہیں کریں گی۔ ویسے بھی ٹرمپ کے بہت سی خواتین سے تعلقات رہے ہیں۔ وہ عورتوں کی عزت نہیں کرتے‘ یعنی اردو زبان میں عورت کو پاﺅں کی جوتی سمجھتے ہیں۔ انکی اہلیہ گزشتہ دنوں ٹرمپ کی الیکشن جیتنے کی تقریب میں بھی نظر نہیں آئیں مگر وہ پریشان نہیں تھے۔ ادھر ادھر خواتین کو دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہے۔ اب ایسا نہ ہو کہ انکی اہلیہ بی فور تحریک امریکہ کی سربراہی سنبھال کر ایسی لاکھوں خواتین کی رہنمائی کریں جو امریکی معاشرے میں مردوں کی سنگدلی کا شکار ہیں اور اب اپنی زندگی تنہابسر کرنے کی حامی ہو گئی ہیں۔
کوا برسوں بعد بھی دشمن کو نہیں بھولتا‘ امریکی سائنسدان۔
جناب کوے کی بے شمار خوبیوں اور خامیوں کی وجہ سے ہی ہمارے ہاں بھی نہایت چالاک اور زیرک شخص کو ”سیانا کوا“ کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل اسکی صلاحیتوں اور مکاریوں کا اعتراف ہوتا ہے۔ ابھی تک ہم پیاسے کوے کی کہانی پڑھتے اور سنتے آئے ہیں‘کہ کس طرح اس نے پانی پیا۔ اب امریکی سائنس دانوں نے عقل مند ی کے علاوہ بھی کوﺅں کی بے شمار صلاحیتیں اور بھی نوٹ کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ برسوں بعد بھی اپنے دشمنوں کو نہیں بھولتا۔ انکے چہرے یاد رکھتا ہے اور بدلہ لیتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہ اپنے ساتھیوں کو دشمن سے نمٹنے کی ترکیبیں بھی بتاتا ہے۔ تو یہ خالصتاً امریکہ والی خوبی ہے جو معلوم نہیں کوﺅں نے امریکہ سے سیکھی یا امریکہ نے کوﺅں سے۔ دونوں کی عادت اس معاملے میں یکساں نظر آتی ہے۔ یہ ایک سے چار تک کے عدد لکھے ہوئے بھی پہچان لیتا ہے اور ادا بھی کرتا ہے۔ مختلف اشیاءسے کھیلتا بھی ہے اور انہیں جمع بھی کرتا ہے۔ یہ بدلے میں نہایت جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے اور حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ بھی ساتھیوں کے ساتھ مل کر۔ جبکہ ہمارے ہاں تو یہ چیزیں بھی چرا لے جاتا ہے بلکہ چھین بھی لیتا ہے۔ وقت بے وقت اسے شور محانے کی بری عادت بھی ہے اور اگر کسی گھر کی دیوار پر بیٹھ کر شور کرے تو گھر والوں کو وہم ہو جاتا ہے کہ مہمان آنے والے ہیں جو پہلے ہی رحمت سمجھے جاتے تھے۔ آجکل زحمت شمار ہوتے ہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان ہو یا کوئی ملک یا پھر کوے میاں‘ یاد رہے کہ کہتے ہیں سیانا کوا ہمیشہ گند پر ہی گرتا ہے اور کوا چلا ہنس کی چال‘ اپنی چال بھی بھول گیا۔ مغرب کی نقالی کرنے والوں کیلئے اچھی مثال ہے۔ اور ضدی لوگوں کیلئے تو آج بھی ”کاں چٹا اے“ کیونکہ وہ کسی کی مانتے نہیں‘ اپنی منواتے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے بعد خیبر پی کے پر بھی دھند چھا گئی۔
کہتے ہیں بڑے بول بولنے سے باز رہا جائے تو بہتر ہے۔ اب یہی دیکھ لیں خیبر پی کے کے مشیر اطلاعات کی طرف سے گزشتہ روز پنجاب میں سموگ کی وجہ سے ابتر صورتحال پر طنز نے کیا اثر دکھایا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پنجاب سموگ سے بے حال ہے اور وزیراعلیٰ اپنے گلے کے علاج کیلئے اپنے والد کے ساتھ سیرسپاٹے کررہی ہیں۔ جنیوا میں گلے کا علاج ہو رہا ہے۔ عوام کے گلوں کی کسی کو فکر نہیں۔ آج دیکھ لیں کیا ہو رہا ہے۔ میدانی علاقوں میں پنجاب اور سندھ میں تو اس موسم میں جب فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں‘ یہ زہریلی سموگ چھا جاتی ہے جو زیادہ تر بھارت سے آتی ہے۔ سندھ اور پنجاب اسکی لپیٹ میں آتے ہیں۔ بیماریاں پھیلتی ہیں‘ ٹریفک حادثات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا واحد علاج بارش ہے۔ یا پھر درختوں یعنی جنگلات میں اضافہ۔ اب خیبر پی کے میں سبزہ تو ہے جنگل بھی ہیں‘ اگر اس میں وہ بلین ،ٹریلین درخت بھی ہوتے جوپی ٹی آئی کی حکومت نے کاغذوں میں تو لگائے مگر زمین پر کہیں نظر نہیں آرہے۔ تو شاید آج وہاں بھی یوں یکدم سموگ کا حملہ اور راج قائم نہ ہوتا۔ جو اچانک چھا رہی ہے۔ ایبٹ آباد‘ پشاور اور مردان تک دھند کی دبیز تہہ میں چھپ سے گئے ہیں۔ یوں
ایک ہی دھند میں ڈوب گئے۔ ایک بے چارہ بلوچستان ہے جہاں دھماکوں کے بعد اڑنے والی دھول چھائی ہے۔ ایک دوسرے پر طنز کرنے سے اچھا تھا کہ چاروں یا دھند سے متاثرہ صوبے مل کر اس کا سدباب کرتے۔ چاہے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ کو خط لکھتے تاکہ وہ بھی اپنے علاقے میں اس مضر صحت دھند (سموگ) پر قابو پانے کیلئے کوشش کرتے۔ وہاں بھی امرتسر‘ دہلی میں دھند کا راج ہے۔ مگر لوگ اسکے عادی ہو گئے ہیں۔ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ ہیں۔