وزیراعظم محمد شہباز شریف عرب اسلامی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب میں موجود ہیں جہاں ان کی عالمی رہنماو¿ں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بلایا گیا ہے جس میں غزہ اور فلسطین سمیت مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ سربراہی اجلاس میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے امید ظاہر کی ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں امن کی کوششوں کو ترجیح کے طور پرتقویت دے گی، صرف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کافی نہیں، فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرنا ہوگا۔ غزہ اور خطے میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے حصول، فلسطینیوں کو بلا روک ٹوک انسانی امداد کو یقینی بنانے، اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انروا (UNRWA) کو بدنام کرنے سے روکنے پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر دوسرے عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے لیے وزرائے خارجہ کونسل کے تیاری کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہونے اور ان کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرنے پر بھی زور دیا۔ پوری امت مسلمہ آج ہماری طرف دیکھ رہی ہے، ہمیں غیر متزلزل سیاسی عزم اور مکمل اتحاد کا مظاہرہ کرنے اور موجودہ صورتحال سے موثر طور پر نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ یو این آر ڈبلیو اے اپنی اہم کارروائیاں جاری رکھے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد ای ایس 10/24 پر مکمل عمل درآمد، اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکن کی حیثیت سے شمولیت کی حمایت، جنگی جرائم پر اسرائیل کو جوابدہ بنانے کے لیے قانونی راستے تلاش کرنے، اسرائیل پر فوری اسلحے کی پابندی عائد کرنے، اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت کا جامع جائزہ لینے اور منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد میں پیشرفت کو مربوط کرنے کے لیے مشترکہ عرب اسلامی سربراہ اجلاس کے ذریعے مشرق وسطی کے لیے ایک مشترکہ عرب اسلامی خصوصی ایلچی نامزد کرنے پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال اکتوبر سے اب تک پاکستان نے اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے انسانی امداد کی 12کھیپس بھیجی ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطینی طلبہ کو مختلف پاکستانی تعلیمی مراکز میں اضافی سکالرشپس فراہم کی جارہی ہیں۔ پاکستان فلسطینی میڈیکل طالب علموں کو پاکستان کے طبی اداروں میں تعلیم مکمل کرنے کے لیے بھی مواقع فراہم کر رہا ہے۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ پاکستان اپنے فلسطینی بھائیوں کے حقوق کی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک جون 1967ءسے قبل کی سرحدوں پر مبنی ایک قابل عمل، متصل اور خودمختار ریاست فلسطین کا قیام عمل میں نہیں آتا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
عرب اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد یقینا خوش آئند ہے اور اس ہنگامی اجلاس کے لیے سعودی عرب کی تعریف کرنا بھی بنتا ہے لیکن ایسے اجلاس پہلے بھی ہوچکے ہیں اور ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ 7 اکتوبر 2023ءسے اب تک غاصب صہیونیوں کی طرف سے غزہ میں بسنے والوں پر مسلسل مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ دوسری جانب، امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے نہ صرف اسرائیل کو اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے بلکہ سفارتی محاذ پر بھی غاصب صہیونیوں کی ہر ممکن مدد کی جارہی ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہ اس صورتحال میں صرف تقریریں اور مذمتی بیانات ہی جاری کررہے ہیں جن کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہورہا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 7 اکتوبر 2023ءسے اب تک 43600سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں جن میں 16765 سے زائد بچے شامل ہیں۔
عرب لیگ اور او آئی سی کے ارکان اگر اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھ ہی گئے ہیں تو انھیں یہ چاہیے اجلاس کو نشستند گفتند برخاستند تک محدود نہ رکھیں۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم نے درست کہا ہے کہ اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، مسلم امہ کو اب عملیت پسندی سے کام لینا ہو گا اگر متحد ہو کر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی جائے تو مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی امیدیں اس اجلاس سے بندھی ہیں جبکہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پوری مسلم امہ یک جہت ہو کر باطل قوتوں کے خلاف صف آرا ہوجائے۔ اگر مسلم حکمران اپنے ملکوں میں بسنے والے عوام کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے کشمیری اور فلسطینی بھائیوں پر گذشتہ سات دہائیوں سے جاری مظالم روکنے کے لیے اسرائیل اور بھارت کے خلاف واضح اور دو ٹوک موقف اختیار نہیں کرسکتے تو پھر کھوکھلے بیانات دینے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان بیانات سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ مسلمان کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں، اس لیے ان کی جانب سے محض بیانات ہی جاری کیے جارہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے مسئلے محض مذمت نہیں بلکہ غاصب کی مرمت سے حل ہوں گے۔