امن ملے تیرے بچوں کو۔۔۔اور انصاف ملے

Nov 12, 2024

محمد دلاور چودھری

سقراط کو جب سزائے موت سنا دی گئی تو اس کے مالدار شاگرد افلاطون اور کریٹو ملنے قید خانے آئے اور انتہائی راز دارانہ انداز میں اپنے استاد کو بتایا کہ انہوں نے سقراط کے فرار کا مکمل انتظام کر لیا ہے۔ قدیم یونان کے قید خانے ٹوٹے پھوٹے بلکہ ہماری سڑکوں اور سرکاری عمارتوں کی طرح انتہائی قابل ترس ہوا کرتے تھے اور اکثر قیدی تھوڑی بہت ”محبت“ پیش کرکے بھاگ جایا کرتے تھے۔ سقراط نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ”میں بوڑھا مزید کتنا جی لوں گا لیکن اگر میں نے سزائے موت پائی تو میرے نظریات ہمیشہ زندہ رہیں گے اس لئے مجھے میرے نظریات کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہنے دو“
سوچتا ہوں ہمیں کیسا پاکستان چاہئے۔ کیا ایسا جس میں نفسا نفسی، خود غرضی، بے حسی، اقربا پروری اور ہر معاملے میں میرٹ کا قتل تو خوب پھلے پھولے لیکن نظریات دم توڑ دیں۔ یا ایسا پاکستان جس میں ہم اپنی ناجائز خواہشات کی قربانی دیکر نظریات کو امر کر دیں۔ یہ قربانی ایسی بھی نہیں کہ اپنا سب کچھ تیاگ دیں اور قیس کو اکیلا پاکر جنگلوں کا رخ کر لیں۔ ہم جیتے جاگتے انسان ہیں زندگی کی آب و تاب سے ہمیں اپنے حصے کی روشنی بھی یقیناً درکار ہو گی بس کرنا فقط اتنا ہے کہ ہم اپنی روشنی کو جائز وسائل کی چار دیواری سے باہر نکال کر ایسا ہولناک سورج نہ بنا دیں جو جائز درودیوار کو پھلانگ کر اردگرد کے لوگوں کی آنکھیں چکا چوند کرکے ان کے حصے کی ”رونقیں بھی اپنی ”زنبیل“ میں بھر لے۔
میٹ ہیگ ( Haig Matt) ایک انتہائی ہونہار لکھاری اور مڈ نائٹ لائبریری (Midnight Library) جیسے شہرہ آفاق ناول کے مصنف ہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ”مزید پانے کی خواہش میں ہم اسقدر آگے چلے جاتے ہیں اور جنون کی حدوں کو چھونے لگتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس موجود ہوتا ہے ہم اس کی لذت سے بھی لطف اندوز نہیں ہو پاتے“
گھر تو سب کو پیارا ہوتا ہے ایسا نہ ہوتا تو قدیم یونانی شاعر ہومر کا کردار اوڈیسیئس (Odysseus) قدرت کی دیوی کلیپسو (Clypso) کی حسین قید سے رہائی کا عزم کرکے گھر جانے کی خاطر مزید سفری صعوبتیں برداشت کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ اسی طرح ہمارے بزرگوں نے کچھ سہانے اور آس امید بھرے خواب نہ دیکھے ہوتے تو وہ پاکستان بننے اور ہجرت کرنے کی مشقتیں کیوں قبول کرتے۔ اپنے گھر کیلئے کچھ خواب تو دیکھنا پڑتے ہیں کیونکہ بقول فراز ”کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا۔“
ہمارے بزرگوں نے تو زمین کا ایسا ٹکڑا حاصل کرنے کے خواب دیکھے تھے کہ جہاں وہ اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزار سکیں اور پاکستان کو دوسروں کیلئے مثالی ملک بنا سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ اب بھی ہم میں سے بہت سوں کے ذہن کو پاکستان کا تصور کرکے تھامس مور کا ”یوٹوپیا“ اپنے حصار میں لے لے جہاں کوئی برائی، کوئی آلائش اور کوئی پریشانی موجود نہ ہو، بس میرٹ کا راج اور اچھے کاموں کا بڑھ چڑھ کر مقابلہ ہو، اور کچھ نہیں۔
سچ ہے اچھے انسانوں کے درمیان کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو میرٹ اور انصاف ایک آنکھ نہیں بھاتا اسی لئے تو مشہور عالمی مفکر جیراڈ ڈائمنڈ (jared Diamond ) نے زراعت کے آغاز کو بہت بڑی خرابی قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں اس ”خرابی‘ سے پہلے انسان اکٹھے رہتے اور مل بانٹ کر کھاتے تھے۔ یہاں تھوڑا سا ذکر روسو کا بھی ہو جائے جو کہتا ہے مسئلہ وہاں سے شروع ہوا جب ایک شخص نے زمین کے ٹکڑے کے گرد لکیر کھینچ کر اسے اپنا کہہ دیا اور ارد گرد موجود لوگ بھی اتنے سادہ تھے کہ انہوں نے اس کی بات تسلیم کرلی۔
 یقیناً ایسے لوگ ہمارے درمیان بھی موجود ہیں جو زمین کے ٹکڑوں کے گرد لکیریں کھینچنے کیلئے بے تاب رہتے ہیں اور دوسرے کی امیدوں کی فصل اکارت کرنے کی بیماری میں مبتلا ہیں لیکن اس سب کے باوجود میرا گمان ہے کہ ہماری اکثریت یقیناً ایک ایسا پاکستان چاہتی ہو گی جہاں زرعی اصلاحات کی جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص تو اپنی بیشمار اراضی کا حساب کتاب بھی نہ رکھ سکے اور کسی کے پاس رہنے کیلئے آدھا مرلہ جگہ بھی نہ ہو۔ 
ہم ایسا پاکستان بھی ضرور چاہتے ہوں گے جہاں اختیارات چند اداروں یا عہدوں کے گرد ہی رقص کرتے نہ رہ جائیں بلکہ ہر سطح پر جمہوری اصولوں کے مطابق تقسیم ہوتے رہیں۔ایسا پاکستان بھی ہماری تمناو¿ں میں شامل ہوگا جہاں میرٹ کی بالادستی ہو، کوئی ماما، چاچا، بھتیجا، بھانجا اور بیٹا اپنے بڑوں کے اندھے اختیارات سے کام لے کر کسی کا حق نہ مار سکے بلکہ منزل اسے ہی ملے جو حقدار ٹھہرے۔ وہ پاکستان جہاں اپنے ذاتی عزائم کو کوئی ”انقلاب یا عزت“ کا مفہوم نہ پہنا سکے بلکہ ایسا کرنے والا نفرت کی مثال بن کر رہ جائے۔
ایک خوبصورت پاکستان جہاں ہسپتالوں میں سب کا اپنوں کی طرح خیال رکھا جائے، تھانوں میں ملک کے اصل وارثوں کو ٹیکس کے پیسے سے تنخواہ لینے والوں کے سلیوٹ پڑیں، انصاف کے مرکز سیاسی مسائل سننے اور عام آدمی کے مقدمات کو زیر التوا رکھنے کی بجائے سائلین کے زخموں پر مرہم رکھیں بلکہ استقبال کی جھولی پھیلائے سائلین کے منتظر ہوں۔ تعلیمی ادارے اور اساتذہ بچوں کا دوسرا گھر بن جائیں، ہر وقت تعلیم کا عالمی معیار حاصل کرنے کی فکر غالب رہے، کوئی ادارہ آئین اور قانون سے بالاتر ہونے کا سوچے بھی نہیں اور سب مل کر عوامی خدمت میں جتے رہیں۔کھانے پینے کی اشیاءاور ادویات میں ملاوٹ کا شائبہ تک نہ ہو، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی سے اسی طرح پرہیز کیا جائے جیسے شوگر کا مریض میٹھے سے کرتا ہے۔ مذہب کے نام پر کوئی طالع آزما دوسروں کے بچے مروانے کا تو سوچے بھی نہیں بلکہ خالص مذہبی تعلیم کا دور دورہ ہو۔
 بعض بزرجمہر اسے دیوانے کا خواب کہہ کر مذاق اڑا سکتے ہیں۔ اگر یہ دیوانے کے خواب ہیں تو پاکستان جھوٹ، فریب، ملاوٹوں، میرٹ کی دھجیاں اڑانے، من مرضیاں کرنے، اختیارات کے ناجائز استعمال، چند لوگوں کے اشاروں پر ناچنے اورذاتی مقاصد کی تکمیل کی خاطر باقی لوگوں کی خواہشوں کو کچلنے کے لئے بھی نہیں بنایا گیا تھا۔
کیا دنیا میں ایسے ملک نہیں ہیں جہاں ہر طرح سے اپنے عوام کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جہاں ہماری ”دیوانے کا خواب“ والی باتیں حقیقت نظر آتی ہیں اور جو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ پھر ہم نے سچ سے کیوں منہ موڑ لیا ہے، کیوں عیاری کو عقلمندی سمجھ بیٹھے ہیں اور دنیا کی نظروں میں اپنا وقار گنوا دیا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ حقائق کا سامنا کریں اور اپنی ناجائز خواہشوں کا ایسا ایندھن تیار کرنے سے باز رہیں جو سب کچھ جلا کر راکھ کر دے۔ ہماری اس نادانی پر جسے ہم دانش سمجھتے ہیں دنیا دانتوں میں انگلیاں دبا کر حیران ہوتی ہے اور سوچتی ہے کیا کوئی ایسا شخص، معاشرہ اور ملک بھی ہو سکتا ہے جو خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو برباد کر لے اور اسے بالکل بھی ملال نہ ہو۔ سوچ لیں ہمیں تاریخ کا رخ موڑنے والا بننا ہے یا رومن بادشاہ نیرو کی طرح اپنے عظیم الشان روم کو جلتا دیکھ کر بانسری بجانے والے کا کردار نبھانا ہے۔ یقیناً یہ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔آخر میں احمد مشتاق کی نظم” پاکستان کیلئے ایک دعا“یاد آگئی جو دعابھی ہے اور خواہش بھی:
امن ملے تیرے بچوں کو
اور انصاف ملے
دودھ ملے چاندی سا اجلا،
 پانی صاف ملے

مزیدخبریں