گذشتہ دنوں ادارہ بہبود کی سیل گرمانی فاونڈیشن ( foundation Gurmani)میں منعقد ہو ئی تھی۔ اس سیل میں پریذیڈنٹ سلمیٰ ہمایوں اور ایگزیکٹو ممبرز خواتین نے بڑی ان تھک محنت سے تیاریاں شروع کی تھیں۔ جب میں وہاں پہنچی اور سلمیٰ ہمایوں نے ہمیشہ کی طرح خیر مقدم کیا تو آسمان نے اپنی آنکھیں موند لی تھیں....دھوپ غائب تھی....ہلکی ہلکی خنک رسیلی اور میٹھی ہوائیں چل رہی تھیں۔ موسم تقریباََ بڑا ہی خوشگوار تھا۔ کیوں نہ ہوتا۔ زرق برق لباس میں خواتین مسکراتے ہوئے مہمانوں کے استقبال میں مصروف تھیں۔ میں وہاں پرپہنچی تو سماں ہی نرالا تھا....سارے سٹالوں پر خواتین براجمان تھیں اور بہت سی خواتین.... خریداری کے ساتھ ساتھ کھا پی بھی رہی تھیں....بڑا ساکمپاونڈ...چاروں طرف سٹالز سے سجا ہوا تھا.
ایک طرف آئل پینٹ پر تصویروں کا سٹال تھا.... جہاں بڑی خوبصورت پینٹ کی ہوئی تصاویر تھیں....تھوڑا سا آگے بڑھی تو بچیوں کے لئے دیدہ زیب فراک اور خواتین کے کڑتے بھی نظر آئے جو کئی مہینوں سے بہبود کی ورکر لڑکیاں بنا رہی تھیں۔
سلمیٰ میری آمد پر نہایت ہی خوش تھی....علیک سلیک کے بعد میں دیگر سٹالز کی طرف بڑھی۔ ایک سٹال پر organic سبزیاں نظر آرہی تھیں....اور تھوڑا سا آگے فروٹ کا سٹال تھا....جہاں مالٹے، کیلے اور امرود صاف ستھرے سجے تھے۔ پھر ہر طرح کے جیم چٹنیوں کا سٹال الگ سے دیکھا۔ پھر ملتانی سوہن حلوے کا سٹال بھی نظروں سے گزرا۔
کچھ خواتین ٹولیوں کی صورت میں بیٹھیں.... سینڈوچ،سموسے اور دیگر اشیاءکھا رہی تھیں....اور ساتھ ہی ایک لائین میں ایگزیکٹو خواتین براجمان تھیں۔
بہبود کی منتظم بیگم اقبال نے مجھے دیکھا تو خندہ پیشانی سے ملی۔ یہ خاتون بھی بہبود کیلئے بہت کام کرتی ہے۔
اس کے قریب ہی خواتین کے ملبوسات کا سٹال تھاجو ہاتھ کی کڑھائیوں سے بنے ہوئے تھے.
ایک سٹال میں سویٹرز ہر رنگ اور سائیز کی رکھی تھیں۔ ڈاکٹر شہریار کی اہلیہ اسما شہریار سے ملاقات بھی ہوئی۔ جیولری کا سٹال بھی نظر آیا جا کر دیکھا تو یوں لگا جیسے بہت ہی قیمتی سونے کی جیولری ہے.... یہ خاتون جو فروخت کر رہی تھی وہ بتا رہی تھی، میں ڈیزائن کر کے کسی جیولرسے بنواتی ہوں....اور یہ زیورات کبھی کالے نہیں ہوتے۔
غرض کہ بہبود کیلئے ہر کوئی کچھ نہ کچھ فروخت کر رہا تھا۔ خوبصورت دیدہ زیب بیڈ شیٹس،ٹی کوزیاں تھیں۔ کچھ ظروف پر آئل پینٹ کیا ہوا تھا....اور ٹیبل لیمپ کے شیڈ بھی آئل پینٹ سے مرصع تھے.... دیگر بے شمار سٹالز بھی تھے....خواتین مسلسل خریداری میں مگن تھیں۔ سب کی آمدنی بہبود کو جاتی تھی۔ لوگ چندہ بھی دیتے ہیں....مگر آجکل مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بہبود کیلئے بہت سی آمدنی درکار ہے کیونکہ سخت مہنگائی میں بہت سے کام مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس ادارے کو ہی مشکلات نے نہیں گھیرا.... بلکہ ایسے کئی ادارے زیر عتاب ہیں....کیونکہ سب سے بڑی وجہ فنڈز کی کمی ہے۔ بہبود کے تین ادارے ہیلتھ،تعلیم اور انکم جنریشن کو چلانے کیلئے وافر پیسہ چاہیے۔
صاحب اقتدار کی توجہ اور اچھے سسٹم کی وجہ سے ملک میں غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ایسے کام کرنے کیلئے صاحب اقتدار کو بہت محنت درکار ہے۔ جو کام ماتحتوں سے کرواتے ہیں وہ انہیں اپنی نگرانی میں خود کروانے چاہئیں۔ مگر....شکوہ کریں بھی تو کس سے۔ کوئی شنوائی نہیں ہے۔ غریب لوگ اپنا پیٹ روٹی سے نہیں بھر سکتے تو ان پر بجلی کا بل دیکھ کر راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں....بچوں کی فیس تو ایک طرف پیٹ بھر کر کھانا ان کے مقدر میں نہیں ہے۔ گداگری زوروں پر ہے۔ چلو گداگری کی ہی روک تھام کر لیں۔
اس ملک میں کوئی قانون اور سسٹم نہیں ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے۔ وہ مہنگائی کا گراف بڑھاتا جا رہا ہے۔ لوگ انتظار کر رہے تھے۔ حکومت میں نئے صاحب اقتدار آئیں گے تو ان کے حالات بدل جائیں گے۔ ایک تو سموگ کی انتہا ہے....اور اوپر سے گیس کی لوڈشیڈنگ سے نہ دن کو چین ہے اور نہ ہی رات کو۔ سب لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ چلو اصحابِ اقتدار کو اگر اللہ کا خوف نہیں ہے تو بڑے بڑے تاجروں کے علاوہ چھوٹے پیمانے پربز نس کرنے والے بھی اپنے قول و فعل میں سچے نہیں ہیں۔ جھوٹ، فریب اور بے ایمانی سے چیزیں فروخت کر رہے ہیں۔ غریب عوام پس رہے ہیں اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اللہ سے دعاکرنی چاہیے کہ ان غریب لوگوں کی مدد کرے۔ بندوں سے کوئی امید نہیں ہے۔ سوائے اللہ کے کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر انسان کے اندر خدا خوفی ہو تو جیسے ادارہ بہبود کی پریذیڈنٹ اور ایگزیکٹو خواتین۔ڈاکٹر عامر رضا، مسرت،الماس بشیر،مینا، اسما شہریار اور دیگر خواتین میں خدا خوفی ہے۔ اس حوالے سے منتظم اقبال بیگم کا نام لینا بھی ضروری ہے کیونکہ اقبال بیگم کو میں نے بہت کام کرتے ہوئے دیکھاہے۔ سب احسن طریقے سے ادارے کو چلا رہی ہیں۔ کچھ صاحب حیثیت لوگ بھرپور چندہ دیتے ہیں اور ان کے دلوں میں خدا خوفی کوٹ کوٹ بھری ہے۔ تب ہی یہ ملک قائم دائم ہے۔ بہبود کی خواتین ممبرز جو نہیں آتیں۔ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ آئیں اور بہود کیلئے کام کریں۔ خاص طور پر اصحابِ حیثیت اس ادارے کی مدد کریں تواللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ ان کو بہت اجر دے گا(آمین)۔
٭....٭....٭