ٹرمپ بادشاہ

وطن عزیز کی سیاست میں ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔ ہماری سوئی امریکی انتخابات اور اس کے مضمرات پر اٹکی ہوئی ہے۔ جب ہم پچھلے پورے ہفتے کی سیاسی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں چار سو ٹرمپ بادشاہ ہی نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے تمام تر سیاستدان مستقبل کی سیاسی جمع بندی میں ایک ہی نقطہ پر فوکس کیے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ٹرمپ بادشاہ کی خوشنودی کس طرح حاصل کی جائے۔ ہر ایک کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح ان پر ٹرمپ کی نظر کرم ہو جائے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تعلق نکالے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اس کے داماد کے ساتھ میرا تعلق ہے، کوئی کہتا ہے اس کی بیوی سے میرا رابطہ ہے، کوئی اس کی بیٹی بیٹے سے تعلق کا دعویدار ہے، کوئی کہتا ہے کہ اس کی ٹیم میرے رابطے میں ہے۔ کوئی اس کے سابق دور کے ساتھی پاکستانی نڑاد ساجد تارڑ کے ساتھ اپنے تعلقات ظاہر کرتا ہے اور کوئی ٹرمپ کے ماضی کے نمائندہ خصوصی برائے پاکستان اور افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا دم بھر رہا ہے۔ کچھ اہم شخصیات ماضی میں ٹرمپ کے خلاف کی جانے والی ٹویٹس ڈیلیٹ کرتی دکھائی دے رہی ہیں کہ کہیں ٹرمپ بادشاہ کی نظر ان پر نہ پڑ جائے اور وہ ناراض نہ ہو جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ کچھ حکومتی شخصیات نے لابیئسٹس کی خدمات حاصل کر لی ہیں کہ وہ ٹرمپ اور اس کے قریبی لوگوں تک رسائی کیلئے ماحول بنانے کیلئے ان کیلئے لابی کریں۔ منڈی بہاوالدین سے تعلق رکھنے والے ساجد تارڑ آج کل حکومت کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں اور ساجد تارڑ بھی اس ماحول کا خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ 
کچھ دوست ممالک سے بھی کہا جا رہا ہے کہ آپکے ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہمارا خیال رکھنا اس معاملہ میں۔ اپوزیشن نے تو کمال ہی کر دیا ہے اور ان کا یہ کمال بنتا بھی ہے کیونکہ پاکستان میں بظاہر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے جب سارے راستے بند نظر آئیں تو تحریک انصاف اپنے ورکرزکو امید بندھانے کیلئے ٹرمپ کارڈ کھیل کر انکے حوصلے جوان رکھ سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی اس تاثر کو دلیلوں کے ساتھ گہرا کر رہے ہیں کہ امریکہ میں مقیم پاکستانی جلد ٹرمپ یا اس کی ٹیم کو قائل کریں گے کہ بانی پی ٹی آئی کو سیاسی مخالفت میں ناجائز جیل میں بند رکھا ہوا ہے، آپ پاکستان پر دباو ڈالیں۔ اسی طرح ذلفی بخاری تو واضح کہہ چکے ہیں کہ وہ ٹرمپ فیملی سے رابطے میں ہیں بس ٹرمپ کو تھوڑی تھکاوٹ دور کر لینے دیں پھر دیکھیں ہوتا ہے کیا۔ ایک صاحب فرما رہے تھے کہ ان حکمرانوں کے ٹرمپ کے خلاف تمام تر بیانات اور ٹویٹس جلد ٹرمپ کی ٹیبل پر ہوں گے۔ کچھ لوگ زلمے خلیل زاد سے اپنے تعلقات کا کہہ کر کچھ لوگوں کی نیندیں خراب کر رہے ہیں۔ یہ معاملات اتنے زیادہ گہرے ہو چلے ہیں کہ باقاعدہ دانشور بھی اس پر بحث کرتے پائے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن کے نظریات سے اِتفاق رکھنے والے نت نئی توجیہات کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ٹرمپ کی جانب سے کوئی اشارہ بھی آ گیا تو حکمرانوں کے بس کی بات نہیں کہ اسے انکار کر سکیں حکومتی نظریات سے لگاو¿ رکھنے والے دانشور کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ ،اینا ویہلا نئیں ، وہ اپنے دلائل میں کبھی چسکے لے لے کر ٹرمپ کی کہانیاں سناتے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے تصوراتی نقشے کھینچے جا رہے ہیں۔ کبھی دلیل دیتے ہیں کہ ریاستوں کے تعلقات میں یہ باتیں بےمعنی ہوتی ہیں۔ کبھی کہتے ہیں پاکستان میں اب امریکہ کی وہ والی دلچسپی نہیں، وہ کیونکر بانی پی ٹی آئی کیلئے اتنا تردد کرے گا۔ کوئی کہتا ہے امریکہ کو اب پاکستان سے کوئی کام نہیں۔ ہر کوئی نت نئی دلیل کے ساتھ اپنا تھیسز اسٹیبلش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہماری حکومت اور اپوزیشن یہ سارا کچھ اس بندے کے بارے میں خیال کر رہی ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ گھڑی میں تولہ ہوتا ہے، گھڑی میں ماشا ہوتا ہے اور اس کا کوئی پتہ نہیں کس وقت کیا بات کر دے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں امریکہ کی مداخلت سے پاکستان میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ خود میاں نواز شریف امریکی مداخلت سے مشرف کی قید سے رہا ہو کر بیرون ملک گئے تھے۔ ہم نے کارگل سے فوجیں امریکہ کے کہنے پر واپس بلوائی تھیں، بھٹو کو پھانسی کے پیچھے بھی اسی کی شہہ تھی۔ ضیا الحق کے طیارے کی تباہی کے اشارے بھی ادھر کو ہی جاتے ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کا الزام بھی ان ہی پر لگایا جاتا ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم بے شمار معاملات میں امریکہ کو انکار بھی کر چکے ہیں لیکن جس انتہائی نچلی سطح پر جاکر ہم اپنے اوپر امریکہ کی سپرمیسی کا خبط سوار کر رہے ہیں اور جس احساس کمتری کا شکار نظر آتے ہیں اس سے قومی حمیت کو دھچکا لگتا ہے۔ پاکستان کا وقار متاثر ہو رہا ہے ہمیں اس بحث سے نکل آنا چاہیے جہاں الیکشن ہوئے جس معاشرے نے ٹرمپ کو اقتدار کیلئے چنا ہے وہاں الیکشن کے اگلے روز لوگ سب کچھ بھول بھلا کر اپنے کاموں پر لگ گئے ہیں۔ ہارنے والوں نے شکست تسلیم کرکے جیتنے والوں کو مبارکباد دی اور جیتنے والے اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی میں جت گئے۔ وہ اپنی انتظامی ٹیم بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور ہم دور کی کوڑی لاتے ہوئے، یہ ہو جائے گا اور وہ ہو جائے گا، کی بحث سے نہیں نکل پا رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نہ اپنے نظام پر اعتبار ہے نہ خود پر۔

ای پیپر دی نیشن